ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے اور اوپن مارکیٹ میں ایک روز میں ڈالر کی قیمت4روپے بڑھی ہے۔جمعہ کے روز ڈالر151روپے پر بند ہوا2 روز میں ڈالر کی قیمت میں 7روپے اضافہ ہوا ہے جبکہ انٹربنک میں ڈالر کی قیمت1.35روپے اضافے کے بعد147.87روپے کا ہو گیا ہے انٹر بنک میں 2روز میں ڈالر کی قیمت میں 6.48روپے اضافہ ہوا ہے۔
ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سونا بھی مہنگا ہوا ہے اور فی تولہ سونے کی قیمت400روپے اضافے کے بعد72100روپے ہو گئی ہے جبکہ 10گرام سونے کی قیمت430روپے اضافے کے بعد61730روپے ہو گئی ہے۔ ادھر عالمی مارکیٹ میں سونا سستا ہوا ہے اور سونے کی فی اونس قیمت8ڈالر کا ہوکر 1285ڈالر فی اونس ہو گئی ہے۔پاکستان کے قرضوں اور واجبات میں ریکارڈ اضافہ ہوا، مجموعی قرضوں کا حجم 350 کھرب روپے سے بھی تجاوز کر گیا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے قرضے اور واجبات کا مجموعی حجم تاریخ میں پہلی بار350 کھرب 94 ارب 50 کروڑ روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیاہے،رواں مالی سال 9ماہ کے دوران مجموعی قرضوں میں 52 کھرب 15 ارب 30 کروڑ روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا، پاکستان کے ہر شہری پر اوسطاً قرضوں کا بوجھ ایک لاکھ 69 ہزار روپے ہو گیا، 9ماہ قبل ہر شہری اوسطاً ایک لاکھ 43 ہزار800روپے کا مقروض تھا۔
9 ماہ کے دوران مجموعی قرضوں اور واجبات میں 17.5 فیصد اضافہ ہوا، گزشتہ مالی سال اس عرصے میں قرضوں میں اضافے کی شرح 12.9 فیصد تھی،اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے 9ماہ کے دوران حکومت کے اندرونی قرضے 10.7 فیصد اضافے سے 181 کھرب 71 ارب روپے اور بیرونی قرضے 23.5 فیصد اضافے سے 96 کھرب 26 ارب روپے تک پہنچ گئے جبکہ نجی شعبے کے بیرونی قرضوں کا حجم اس دوران 16 کھرب 54 ارب روپے سے بڑھ کر 21 کھرب 8 ارب روپے ہو گیا۔
اس سے قبل دسمبر 2018ء کے دوران ڈالر کی بڑھتی قیمت پر وزیراعظم عمران خان کاکہناتھا کہ روپے کی قدر میں کمی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سابقہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہاتھا کہ بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنا ضروری تھا۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ آنے والے دنوں میں ڈالر مزید کتنااوپرجائے گامگر جب تک تجارتی خسارہ بڑھتا رہے گا ڈالر مہنگا ہوتا رہے گا۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اب اپنے عہدے پر تو نہیں رہے مگر ان کا مؤقف صحیح ثابت ہورہا ہے ڈالر میں کمی کی بجائے تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے عہدیداران کے مطابق ڈالر کی قدر میں ایک سال کے دوران 32 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ہماری حکومت آئی ایم ایف کے پاس چلی گئی ہے اور اعلان کرنے سے قبل اس کی شرائط کو پورا کیا جا رہا ہے۔ایسا نہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں ہی ڈالر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا ہے، بلکہ ماضی میں بھی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن اتنا اضافہ پہلی بار ہوا ہے۔
رواں سال مارچ میں انٹر بینک تجارت میں ڈالر کی قدر بڑھ کر 115.50 روپے تک پہنچ گئی تھی جس پر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں اور ماہرین نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے گئے وعدے ہیں۔
پھر رواں سال ہی جون کے مہینے میں ڈالر مزید بڑھا اور ملکی ‘تاریخ کی بلند ترین سطح 121 روپے پر پہنچ گیا تھا۔پاکستان میں نگران حکومت کے دور میں الیکشن کے انعقاد سے قبل امریکی ڈالر 118 روپے سے بڑھ کر 130 تک پہنچ گیا تھا لیکن الیکشن کے بعد ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 122 روپے میں فروخت ہونے لگا۔مگر بات یہاں نہ رکی اور موجودہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے فیصلے کے فوراً بعد ہی ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا،ماہرین کے مطابق عام آدمی کی زندگی پر اس اضافے کا بہت اثر پڑھ رہا ہے۔
افراط زر میں جو اب اضافہ ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگااور ساتھ ہی ساتھ بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ 2019 کا سال پاکستانی عوام اور خاص طور پر غریبوں اور مڈل کلاس کے لیے بہت برا گزرے گا۔اب تک ڈالر کی جس طرح اڑان دیکھنے کو مل رہی ہے یقیناًاس سے عوام پر زیادہ بوجھ آئے گا جس کے بعد روزمرہ استعمال کی ہر چیز مہنگی ہوجائے گی اور ساتھ ہی ٹیکسز بھی بڑھتے جائینگے جس کااثر روزگار پر پڑے گا اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
نئی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی ایسی معاشی پالیسی سامنے نہیں آئی جس پر اطمینان کا اظہارکیاجاسکے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشی پالیسی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ قرض لینے کے جو شرائط ہیں اس کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے ایک درمیانہ راستہ اختیار کرے وگرنہ یہ انتہائی مشکل ترین وقت ثابت ہوگا جس کے برائے راست اثرات غریب عوام پر پڑینگے۔عوام پر پہلے سے ہی بہت زیادہ بوجھ لاد دیاگیا ہے جبکہ انہیں کوئی سہولیات میسر نہیں۔مہنگائی کا طوفان عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گالہٰذا ضروری ہے کہ عوامی مفادات کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس طوفان سے ان کو بچایاجائے۔