ملک کی سیاسی تاریخ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہمیشہ کشیدہ رہی ہے یہ سلسلہ 70 سالوں سے چلتا آرہا ہے، البتہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کے اندر جمہوری اور غیر سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنے جس میں ملک کے نڈر اور ایماندار سیاستدانوں نے اپنا کردار ادا کیا۔
یہ بات الگ ہے کہ انہیں مرکزمیں حکومت بنانے میں کبھی کامیابی نہیں ملی مگر عوامی قوت کسی حد تک ان رہنماؤں کے ساتھ رہی ہے جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی صعوبتوں میں کاٹ کر جمہوریت اورعوامی مفادات کے خلاف کوئی سودے بازی نہیں کی، مختصر ہی سہی مگر ایک اچھی سیاست ہماری تاریخ میں رہی ہے جن کا مقصد اقتدار کی کرسی نہیں بلکہ ملک میں ایک مضبوط جمہوری نظام قیام تھا تھا جس میں ملک اور عوام کے وسیع ترمفادات شامل تھے مگر موجودہ اپوزیشن میں شامل انہی سیاسی جماعتوں کی اقتدار کی چپقلش اور رسائی نے پارلیمان کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا اور حقیقی سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے رہے۔
آج انہی جماعتوں کو مکافات عمل کا سامنا ہے۔ آج جس طرح سے اپوزیشن میں اتحاد بناکر بیٹھے ہیں ماضی میں ایک دوسرے کی شدید ترین مخالفین میں شمار ہوتے رہے ہیں زیادہ عرصہ کی بات نہیں جب پاکستان پیپلزپارٹی نے 2008ء میں حکومت بنائی تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان کشیدگی برقرار رہی اسی طرح جب 2013ء میں مسلم لیگ ن حکومت میں آئی تو پیپلزپارٹی سمیت پی ٹی آئی کے درمیان کشیدگی سخت رہی یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں جاری دھرنا میں شرکت کی اور اس دوران شیخ رشید نے عمران خان اور آصف علی زرداری کے درمیان قربت بڑھانے کی کوششیں کیں مگر یہ کوششیں بے سود رہیں۔
بہرحال ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کیلئے اقتدار ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے قصور وار یہی سیاسی جماعتیں رہی ہیں جن کی آپس کے اختلافات نے سیاسی بحرانات کو جنم دیا۔ 2008ء پاکستان کی سیاست کا اہم باب اس لئے ہے کہ اسی سال تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحدنظر آرہی تھیں۔
مشرف حکومت کے خلاف ایک گرینڈالائنس بن چکا تھا اور اسی دوران مسلم لیگ ن کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس لندن میں منعقد کی گئی جس میں اہم فیصلے کئے گئے جس میں سب سے بڑا فیصلہ مشرف کے زیر اثر الیکشن کامکمل بائیکاٹ تھا۔اس فیصلے پر مسلم لیگ ن،پی ٹی آئی سمیت دیگرسیاسی،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے اتفاق کیامگر پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا۔
بہرکیف پیپلزپارٹی کے اس اہم فیصلے کے بعد لندن کانفرنس کی اہم بیٹھک کی سربراہی کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن بھی خود اپنے فیصلہ کی نفی کرتے ہوئے جنرل الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری شروع کردی اور اس میں دیگر جماعتیں جو لندن کانفرنس میں شریک تھیں، وہ الیکشن سے باہر رہیں کیونکہ وہ مسلم لیگ ن کے یوٹرن سے لاعلم تھے پھر اس طرح اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا اور اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ پھر شروع ہوگئی۔
گزشتہ روز اپوزیشن جماعتوں نے عیدالفطر کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی صدار ت میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جا سکے تاہم اے پی سی کی تاریخ کا تعین بعد میں کیا جائیگا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت تنہا پاکستان کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتی،تمام جماعتیں پارلیمان کے اندر اور باہر علیحدہ علیحدہ احتجاج کریں گی،انہوں نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ سلسلہ وار ملاقات اور مذکرات جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا جبکہ مریم نواز شریف کا کہناتھا کہ میثاق جمہوریت کا یہ فائدہ ہوا کہ دو جمہوری طاقتوں نے اپنی مدت پوری کی،میثاق جمہوریت کا سلسلہ محض ادھر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ اس کو آگے لے کر چلیں گے۔
پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) روایتی سیاسی حریف رہے لیکن ایک دوسرے کے دکھ میں کھلے دل سے شریک ہوتے ہیں،مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک اس وقت اقتصادی طور پر بیٹھ رہا ہے جس کی وجہ نا اہل لوگ ہیں،شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت مسائل کے حل میں ناکام ہو چکی ہے 2018 کے انتخابات کے نتائج عوام بھگت رہے ہیں ابھی توصرف ابتدا ہے اجلاس میں نام نہاد احتساب پر بات نہیں کی گئی احتساب کے نام پراپوزیشن کو دبایا جا رہا ہے اور یہ آمریت کی نشانی ہے،آج پارلیمان میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے بات سڑکوں تک آ گئی ہے۔
اپوزیشن کی اس بیٹھک اور عید کے بعد کی تحریک کا ماضی کے ساتھ موازنہ کیاجائے تو اس نتیجہ پر پہنچاجاسکتا ہے کہ ملک میں اگر ایک بہترین حکومت موجود نہیں تو اچھی اپوزیشن بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی البتہ وقتی دباؤ بڑھانے کیلئے شاید یہ بیٹھک کارآمد ثابت ہو مگر عوام پر مہنگائی سمیت دیگر بحرانات لانے والے یہی سیاسی جماعتیں ہیں جب تک اقتدار کی رسہ کشی سے باہر نکل کر عوامی مفادعامہ کو مدِ نظر رکھ کر پالیسی نہیں بنائی جائے گی۔
عوام کے مسائل اسی طرح برقرار رہینگے صرف اقتدار کی تبدیلی ہوتی رہے گی جبکہ پالیسیاں وہی ہونگی جو چلتی آرہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی بیٹھک یہ پہلی بار نہیں جس سے امیدیں وابستہ کی جائیں کیونکہ یہ بیٹھک صرف ان کے اپنے مفادات کے لیے ہیں عوام کے لیے نہیں۔