|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2019

ملک میں جاری معاشی بے یقینی کے باعث اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان جاری ہے جبکہ ڈالر بھی مزید مہنگا ہوگیا ہے۔نئے کاروباری ہفتے کے پہلے روز ہی اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیوں کا آغاز انتہائی منفی انداز میں ہوا ہے۔ پیر کے روز جب کاروبار شروع ہوا تو ہنڈریڈ انڈیکس 33 ہزار 162 پر تھا تاہم ابتدا میں ہی سرمایہ کاروں کی جانب سے فروخت کا عنصر غالب رہا اور انڈیکس 800 سے زائد پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 32 ہزار 352 کی سطح پر پہنچ گیا۔

دوسری جانب کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان بھی جاری ہے اور پیر کے روز انٹر بینک میں امریکی ڈالر کی قدر میں مزید 91 پیسے کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ایک ڈالر 148 روپے 78 پیسے کا ہوگیا۔دوسری جانب آئندہ دو ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا جس میں شرح سود کو بڑھا کر12.25کردیا گیا۔ ماہرین کے مطابق شرح سود بڑھنے سے کاروباری لاگت اور حکومتی قرضوں میں اضافہ ہوگا، حکومتی مقامی قرضوں میں 300 ارب روپے اضافہ کا خدشہ ہے، گاڑیوں اور گھروں کی خریداری پر قرض لینا مہنگا پڑے گا، گاڑیوں اور گھروں کی خریداری میں کمی آئے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے نئی سرمایا کاری تعطل کا شکار ہو جائے گی۔گزشتہ 17 ماہ میں شرح سود میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا۔ادھر اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے آخر پر بیرونی قرضوں کاحجم 105ارب 84کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال اسی عرصے میں یہ قرضے92 ارب 29کروڑ ڈالر تھے۔ر واں مالی سال کی تین سہ ماہی میں 13 ارب 55 کروڑ ڈالر کے قرض کا اضافہ ہوا ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کا تقریباً 75 فیصد ہوگئے ہیں، پاکستان کو رواں سال دسمبر تک 5ارب 72کروڑ ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔

پاکستان کو اگلے ماہ کے آخر تک 1ارب 27 کروڑ ڈالر جبکہ جولائی سے دسمبر تک 4ارب 44کروڑ ڈالر واپس کرنے ہیں واجب الادا قرضوں میں آئی ایم ایف،عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضے شامل ہیں اور دسمبر سے پہلے 1ارب ڈالر مالیت کے بانڈ کی مدت بھی ختم ہو رہی ہے،بانڈ کی رقم بھی سرمایہ کاروں کو واپس لوٹانی ہوگی۔

علاوہ ازیں ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران یورو اور برطانوی پونڈ کی قدر میں بھی بالترتیب 6.40روپے اور10.70روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔دسمبر 2018ء کے دوران وزیراعظم عمران خان کے اس بیانیہ کاجائزہ لیتے ہیں کہ وزیراعظم نے کس طرح بحرانات سے نمٹنے کیلئے وعدے کئے تھے اور آج اس پر کس حد تک عملدرآمد ہورہا ہے،عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان انسانی و قدرتی وسائل سے مالا مال اچھوتی سرزمین ہے، درپیش چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دستیاب مواقع سے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا۔

دوسروں پر انحصار کی پالیسی ترک کرنا ہو گی، بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ، نئی منڈیوں کی تلاش کے ذریعے برآمدات میں اضافہ اور کاروبار میں آسانی اور اسے منافع بخش بنانا اور منی لانڈرنگ کی موثر روک تھام ترجیحات میں شامل کرنا ہوگی، ہم نے بحرانوں سے نکلنا ہے تو سوچ کو تبدیل اور دوسروں پر انحصار کو ختم کرنا ہو گا، ہم قرضوں کے انتظار میں رہتے تھے، بجائے اس کے کہ ہم اپنی معیشت میں خرابیوں کو دور کرتے۔

ملک گھر کی طرح ہوتے ہیں، جب خرچ زیادہ اور آمدن کم ہوتی جا رہی ہو تو قرضے لے کر گھر چلانے سے گھر بھی تباہ ہو جاتے ہیں، خسارہ بڑھنے پر آمدن بڑھانے کی بجائے قرضوں کا شارٹ کٹ اختیار کیا گیا۔

کوئی مفت میں قرضہ نہیں دیتا، ہم قرضے لے کر اپنی عزت نفس اور خود مختاری کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں اور ہماری عزت نفس اور غیرت ختم ہوتی گئی کیونکہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والے اپنی عزت نفس کھو بیٹھتے ہیں، قرض لینے سے ہماری سوچ خراب ہو گئی اور قومی تعمیر نہیں ہو سکی۔ قرضوں کی وجہ سے امیر لوگ فائدہ اٹھاتے تھے جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے تھے۔

اس بیان کے بعد کونسی تبدیلی لائی گئی جس کی مثال دی جاسکے، آئی ایم ایف سے پھر رجوع کرکے قرضہ لیا گیا تمام شرائط من وعن تسلیم کئے گئے،قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا آگے چل کر مزید اس میں اضافہ یقینی ہے اگر کوئی مؤثر معاشی پالیسی ہوتی تو دوبارہ قرضہ لیکراپنی عزت نفس کو مجروع نہ کیا جاتا۔

عوام کیلئے پہلے بھی مشکلات تھیں مگر اب صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے اگر اسی طرح سے قرضوں پر انحصار کیا گیا تو صدیوں تک یہ قوم صرف قرض ہی ادا کرتی رہے گی کبھی بھی بحرانات سے نہیں نکل پائے گی۔ آج عوام بیروزگاری سے دوچار ہیں جبکہ تنخواہ دار دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری کررہے ہیں، اگر معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی تو ملک میں موجود دیگر سرمایہ کار بھی بیرونی ممالک کا رخ کرینگے جس سے ملک کا مزید دیوالیہ نکل جائے گا۔

حکومت معاشی سمت کو بہتر کرنے کیلئے ملکی وسائل اور برآمدات کو بڑھانے پر زور دے تاکہ آنے والے وقت میں کچھ بہتری کی امید پیدا ہوسکے کیونکہ اب تک قوم نے کوئی خوشخبری نہیں سنی، ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں اور قرضوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے عوام صرف قرض ہی اتار رہی ہے، عوام صرف اس قرض کے بوجھ سے چھٹکارا چاہتی ہے تاکہ آسودہ زندگی بسر کرسکے ناکہ بیرونی ممالک سے لوگ یہاں روزگار کی تلاش میں آئیں جس طرح کے سہانے خواب دکھائے گئے تھے۔