|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2019

یمن میں حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ انھوں نے سعودی عرب کے جنوبی صوبے نجران میں ایئرپورٹ پر اسلحے کے ایک ڈپو کو نشانہ بنایا ہے۔حوثیوں کے المصیرہ ٹی وی کی ویب سائٹ پر منگل کی صبح شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اِس حملے میں کے ٹو قصیف ایئرکرافٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔ حوثیوں کے مطابق اس حملے کے بعد وہاں آگ بھڑک اٹھی۔

سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے یمن میں سعودی اتحاد کے ترجمان نے کہا ہے کہ دھماکہ خیز مواد سے لیس ایک ڈرون کے ذریعے اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جو عام لوگوں کے زیر استعمال تھیں۔

سعودی اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی دہشتگردوں کی کارروائیاں جاری ہیں جو خطے اور دنیا کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہیں۔ عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے العربیہ نے خبر شائع کی تھی کہ سعودی عرب کی ایئر ڈیفنس فورسز نے طائف اور جدہ کے اوپر حوثی باغیوں کے دو میزائلوں کو فضا میں تباہ کر دیا ہے جن میں سے ایک کے ٹکڑے وادی جلیل میں گرے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش کے باعث خطہ اس وقت کشیدگی کا شکار ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سمندری حدود میں چار بحری جہازوں پر حملوں کی اطلاعات اور حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب میں آئل پمپنگ اسٹیشنز پر حملوں کے بعد سعودی عرب نے گلف کوآپریشن کونسل اور عرب لیگ کی ہنگامی سربراہی کانفرنس بلانے کا کہہ چکا ہے۔

دوسری جانب امریکہ نے بھی مزید جنگی جہاز اور اسلحہ خطے میں بھیج دیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کی جانب سے خطرے کے ردعمل میں یہ اقدام کیا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ماضی کی نسبت اب زیادہ خراب ہوتے جارہے ہیں۔

شیخ نمر النمر کی سزائے موت سے شروع ہونے والی کشیدگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پھر تہران میں سعودی سفارتخانے کو نذر آتش کیے جانے، ریاض سے ایرانی سفارتکاروں کی بے دخلی جیسے اقدامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ خطے میں سیاسی اور مذہبی اثر ورسوخ کی دوڑ میں ریاض اور تہران کے درمیان جاری مقابلہ بازی کے اثرات خلیج کے پرسکون پانیوں سے کہیں دور تک پھیلتاجارہا ہے جس سے مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک ایسانہیں جو ان دونوں کی کشیدگی سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکے۔

اگرچہ حالیہ کشیدگی کے باعث ابھی تک دونوں ملکوں میں براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا ہے، تاہم یہ کشیدگی اتنی ہی خطرناک دکھائی دیتی ہے جتنی سنہ 1980 کی دہائی میں تھی۔

ایران سے سعودی عرب،بحرین،سوڈان اور اب کویت نے بھی سفارتی تعلقات ختم کردئیے ہیں جو نیک شگون نہیں کیونکہ اس طرح سے اسلامی ممالک ایک دوسرے کے مد مقابل آئینگے جو خطے کو شدید متاثر کرکے رکھ دے گا۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھاجائے تو او آئی سی بھی اس قدر مضبوط اور مستحکم نہیں جو بہت بڑا کردار ادا کرسکے البتہ چند ایسے ممالک ہیں جو اس کشیدگی میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرسکتے ہیں۔

پاکستان اور ترکی اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی پاکستان اورترکی نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے مثبت بیانات دیئے تھے کیونکہ یہ کشیدگی ان ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جس کے بنیادی اسباب شیعہ اور سنی فرقہ واریت کی صورت میں سامنے آئینگے۔ اس وقت مسلم ممالک اس کشیدگی کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ شام،عراق،افغانستان جبکہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے اگرچہ پاکستان کی صورتحال ان ممالک سے قدرے بہتر ہے مگر دہشت گردی کے سائے یہاں پر بھی منڈلارہے ہیں کیونکہ شدت پسند ان مواقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور سنی شیعہ کی بنیاد پر پھوٹ پھیلا کر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس سے بعض اسلامی ممالک عدم استحکام کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ جلد حل نہ ہوا تو جنگی صورتحال پیدا ہوگی جس سے اسلامی ممالک مختلف اتحاد کا حصہ بھی بن سکتے ہیں جو کہ اسلامی ممالک کے مفادات کے خلاف ہوگا۔