|

وقتِ اشاعت :   May 26 – 2019

بلوچستان کے نئے بجٹ پرسب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ اس بار کن اسکیموں کو زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ بلوچستان کا بجٹ خسارے کارہا ہے جس میں غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے زیادہ رقوم مختص کی گئیں۔ اب بھی پی ایس ڈی پی پر بہت زیادہ شور شرابہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اگر مجموعی طور پر حکومت اور اپوزیشن ملکر بجٹ تیار کریں تو یقینا ماضی کی نسبت کم خسارے کا بجٹ پیش کیاجاسکتا ہے۔

بلوچستان واحد صوبہ ہے جس کی آمدن بالکل محدود ہے مگر وسائل کے لحاظ سے ملک کا اہم صوبہ ہے، وسائل کو بروئے کار لاکر منصوبوں کی بہترین تشکیل سے صوبہ کے محاصل کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کی معیشت میں اسمگلنگ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ صنعتی اشیاء اسمگل ہوکر بلوچستان آتی ہیں، ان پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی اسمگلرز اور دکاندار ریاست کو کسی قسم کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

اس لئے ریاست کی آمدنی بلوچستان میں منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی محاصل میں اضافہ نہیں ہوا صرف معدنیات کے شعبہ سے کچھ فائدہ پہنچا ہے خاص کر سیندھک کے سونے کے کان سے اربوں روپے کا ٹیکس ریاست کو ملتا ہے۔ باقی کوئی اہم شعبہ نہیں ہے جہاں سے حکومت کو قابل ذکر آمدنی حاصل ہو۔ روایتی طور پر بلوچستان میں ماہی گیری، زراعت، گلہ بانی، معدنیات بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔

یہی صوبائی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں افسوس کہ ہر بجٹ میں ان شعبوں کونظر اندازکیاجاتا ہے جبکہ تمام تر توجہ ان اسکیموں پر دی جاتی ہے جہاں سے افسران اور سیاسی رہنماؤں کو ذاتی طور پر فائدہ پہنچ سکے۔ گوادراس کی ایک واضح مثال ہے جہاں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ ہیں جو بی ڈی اے اور محکمہ صنعت کی طرف سے لگائے گئے،ان میں اربوں روپے کا کمیشن وصول کیا گیا۔

نیب اگر اس معاملے کی چھان بین کرے تو یقینا اس منصوبے میں کرپشن بے نقاب ہوگا،اور اربوں روپے ملوث عناصر سے وصول کئے جاسکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اسی رقم کے چوتھائی حصہ سے ان دریاؤں پر ڈیم بنائے جاسکتے تھے جو نہ صرف گوادر بلکہ اس کے گرد و نواح کو صاف پانی کی فراہمی ممکن بناتے۔ بجٹ بناتے وقت ان چار اہم شعبوں کا خاص خیال نہیں رکھا گیاجہاں سے 90فیصد لوگوں کوروزگار ملتا ہے۔

گلہ بانی کو ترقی دے کر ہم دودھ، مکھن کی پیداوار میں نہ صرف اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ ان کو برآمد بھی کرسکتے ہیں جس سے پڑوسی ممالک میں قربانی کے جانوروں اور خوراک کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔

ماہی گیری کا شعبہ ملک بھر میں پروٹین کی ضروریات پوری کرنے کے بعد چھ ارب ڈالر کی مچھلی دنیا بھر میں برآمد کرسکتاہے۔ زراعت کے شعبے میں ہمارے پا س لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین موجود ہے، اس کو قابل کاشت بناکر بلوچستان غذائی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل بلکہ پورے خطے کی غذائی اجناس کی ضروریات پوری کرسکتاہے۔

معدنیات تو کئی کھرب ڈالر کا پروجیکٹ ہے مگر بدقسمتی سے یہ کرپشن کی نظر ہوکر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے صوبے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا صرف کرپٹ عناصر اس سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔

صوبائی حکومت ماہی گیری، زراعت، گلہ بانی اورمعدنیات کے شعبوں کو اس بجٹ میں اہمیت دے تو یقینا آنے والے سالوں میں بلوچستان کے وسائل سے اربوں روپے کا فائدہ اٹھایا جاسکے گا۔ لہذابلوچستان کوزبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر ایک خوشحال صوبہ بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ عوام کے معیار زندگی میں کچھ بہتری آسکے۔