|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2019

ڈیرہ اللہ یار : بلوچستان سنڈے پارٹی جعفرآباد کی نشست بیاد یوسف عزیز مگسی رند ہاوس ڈیرہ اللہ یار میں منعقد ہوا۔ علمی ادبی فکری نشست میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی عبدالرسول بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنڈے پارٹی جیسے نشستوں کی کافی عرصہ پہلے ضرورت تھی۔ جب ہمارے سینئر دوست ہم میں موجود تھے۔ پھر بھی دیر آمد درست آمد۔

یوسف عزیز مگسی کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور سردار و نواب انگریز سامراج کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔ اکابرین کے حوصلے اور ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جنھوں نے سہولیات کے بغیر تحریک کو کامیابی سے چلایا۔ ہماری سیاست اکابرین کے خدمات کی مرہون منت ہے۔ عبدالستار بنگلزئی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنڈے پارٹی کے دوست مبارک باد کے مستحق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یوسف عزیز مگسی نے طبقاتی جدوجہد کی۔ اس سے پہلے بلوچستان میں منظم سیاست کا تصور نہیں تھا۔ شعوری اور منظم سیاست کی بنیاد یوسف عزیز مگسی نے رکھی۔ خادم حسین لاشاری نے کہا کہ یوسف عزیز مگسی طبقے کے باغی تھے۔ وہ نوابی کو عیب سمجھتے تھے۔

یوسف عزیز مگسی علم دوست انسان تھے۔کامریڈ رفیق کھوسہ نے کہا کہ یوسف عزیز مگسی نے سیاست پر ایک چھاپ چھوڑی ہے۔ ہمارا یہ ہیرو، مجاہد، سرفروش کوئیٹہ کے زلزلے نے ہم سے چھینی۔ اپنی چھ سالہ عملی زندگی میں ایک سال نظر بند اور نو ماہ حالات کی وجہ سے لندن میں رہے۔ بلوچوں کو متحد کرنے کے لئے جیکب آباد اور حیدر آباد بلوچ کانفرنسوں کا انعقاد یوسف عزیز مگسی اور آن کے ساتھیوں کا کارنامہ ہے۔

عبدالحکیم بلوچ نے کہا کہ یوسف عزیز مگسی تعلیم دوست انسان تھے۔ اس نے کم عمری میں 1924 میں جھل مگسی میں بورڈنگ اسکول قائم کی۔ جس کے تمام اخراجات اپنے جیب سے برداشت کرتے تھے۔ اس کے لئے پنجاب سے اساتذہ لے کر آئے۔ اور باقاعدہ ہدایت جاری کی کہ جس کے بھی تین بچے ہونگے وہ ایک بچہ ضرور بورڈنگ اسکول میں داخل کرائے گا۔

نہ کرانے کی صورت میں بطور جرمانہ خون بہا دینا ہوگا۔ کاش کی آج بھی اس ریجن میں یوسف عزیز مگسی جیسے سرخیل لیڈر موجود ہوتے تو بلوچستان کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔ محمد نواز کھوسہ نے اپنا مقالہ ” یوسف عزیز مگسی کی شخصیت اپنے خطوط کی روشنی میں ” پڑھا۔ مقالہ میں ان کے خطوط کی روشنی میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔

عبدالسلام کھوسہ نے یوسف عزیز مگسی کی زندگی پر اپنا مفصل مقالہ پڑھا۔دیگر شرکاء میں علی حسین کھیازئی، اکبر بلوچ، شاہزیب کھوسہ، میر بالاچ، توثیق سلام، زریاب سلام، سرمد سلام، نیک محمد رند اور نوید رند شامل تھے۔