|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2019

بلوچستان سے اچھی خبریں نہیں ملتیں یہ خطہ اپنے جسم کو خون سے تر کرتا چلا آر ہا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود امن فقط ایک خواب کی صورت میں دھندلی تصویر کے ماننددکھائی دیتی ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا میں بلوچستان کا میدان سیاسی،سماجی،معاشی اور تعلیمی حوالے سے بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ گراؤنڈ پر ایک ہیجانی سی کیفیت موجود ہے۔ ان مسائل پر بہت کم بات کی جاتی ہیجن سے یہاں کے باشندے آئے روز متاثر ہوتے ہیں۔

تازہ خبر ہے مستونگ سے، اور مستونگ سے خبر ہے کہ گرلز اسکول انڈر اٹیک ہیں ایک ہفتے کے دوران تین اسکولوں میں بظاہر الرجی کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں مگر آزاد ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ واقعات تخریب کاری کا شاخسانہ لگتے ہیں۔اسکولوں کے اندر زہریلا مواد چھوڑ کر علاقے میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ لڑکیاں تعلیمی نظام سے دور رہیں صحت کے ادارے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹا کیسے جائے۔

پہلا واقعہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول محمد شہی میں پیش آیا جب ایک ہی دن 170سے زائد بچیاں الرجی کا شکار ہوگئیں۔ جنہیں بی ایچ یو محمد شہی، سول ہسپتال مستونگ اور غوث بخش رئیسانی ہسپتال لایا گیا۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے حشرات سے پھیلنے والی وبا قرار دے کر بچیوں کو ٹریٹمنٹ دے دی۔ 12بچیوں کی حالت خراب ہوجانے سے انہیں سی ایم ایچ کوئٹہ شفٹ کیا گیا۔

اس سے اگلے روز اسی طرح کا ایک اور واقعہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول اشکنہ مستونگ میں پیش آیا۔ واقعے کے نتیجے میں 55بچیاں متاثر ہوئیں۔ جنہیں سانس اور الرجی کی تکلیف کا سامنا رہا۔ بچیوں کو مستونگ کے مقامی ہسپتال میں طبی امداد فراہم کی گئی تاہم 13کو تشویش ناک حالت میں سول ہسپتال کوئٹہ ریفر کیا گیا۔ جن میں ایک بچی کو فالج کااٹیک آیا۔ واقعے کے بعد کوئٹہ سے ماہر امراض جلد، ماہر امراض نفسیات اور میڈیسن کی ٹیم نے اسکول اور ہسپتالوں کا دورہ کرکے بچیوں کے خون کے نمونے لیے اور اسے جلدی بیماری قرار دیا۔

تیسرا واقعہ تین روز کے وقفے کے بعد گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول شمس آباد میں پیش آیا۔ واقعے میں اب تک متاثرہ بچیوں کی تعداد 69 بتائی جا رہی ہے۔ جن میں 57کو سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا جا چکا ہے۔ پے درپے واقعات نے علاقے میں تشویش کی ایک لہر پیدا کی ہے۔ مستونگ واقعات کو لے کر اہلِ علاقہ سڑکوں پر نکل آئے اور واقعات کے خلاف احتجاج کیا۔ حکومت سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق دو ماہ قبل نامعلوم افراد کی جانب سے علاقے میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے جس میں بچیوں کو تعلیم سے دور رہنے کا کہا گیا تھا۔ تاہم پمفلٹ تقسیم کے حقائق سامنے نہیں آئے اور نہ ہی انتظامیہ سے اس کی تصدیق ہو سکی۔

یہ کون ہیں ان کے مقاصد کیا ہیں اور یہ سب کیوں کرنا چاہ رہے ہیں انتظامیہ ابھی تک سراغ لگانے میں ناکام ہے اور نہ ہی طالبات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ فقط صحت عامہ کا معاملہ سمجھ کر دوائیوں سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے مستونگ ہی میں چار سال قبل لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے اور گرلز کالج کی بس کے اندر کفن پھینک کر لڑکیوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کا انتباہ کیا گیا تھا۔

اپریل 2014 میں شدت پسند تنظیموں کی جانب پنجگور میں ایسی کاروائیاں کی گئی تھیں علاقے میں پمفلٹبانٹے گئے تھے اور متنبہ کیا گیا تھا کہ لڑکیوں کو غیرسرکاری تعلیمی اداروں کے بجائے سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں۔ اگست 2014کوپنجگور میں اسکولوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ ان واقعات کی ذمہ داری ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم الفرقان الاسلامی نے قبول کی تھی۔ شدت پسند تنظیم کا الزام تھا کہ نجی اسکول مغربی تعلیم کے ذریعے لڑکیوں کا کردار خراب کر رہے ہیں۔
ان واقعات کے نتیجے میں پنجگور کے کئی پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند ہوئے تھے۔ اور اساتذہ کو علاقے سے نقل مکانی کرنا پڑا تھا۔ جون 2013کو سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے بس کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے میں 14طالبات سمیت 25افراد جان بحق ہوگئے تھے۔ واقعے کے بعد بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کے اندر ایک خوف کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔

مکران بیلٹ میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے۔ تاہم یہ ادارے مختلف اوقات میں حالات کی زد میں رہے ہیں۔ کیچ کا تعلیمی ادارہ ڈیلٹا بھی متاثر ہوا۔ 2013کے انتخابی مہم کے دوران ڈیلٹا سے ملحق ڈاکٹر مالک بلوچ کی رہائش گاہ پر دستی بم سے حملہ ہوا۔ حملے کو جواز بنا کر بعد میں ڈاکٹر مالک کی طرف سے ڈیلٹا اسکول کو منتقل کرنے کا حکم صادر ہوا اور مجبوراً ڈیلٹا اسکول کو کیچ کے کسی اور علاقے میں منتقل کیا گیا جس سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئیں۔

دسمبر 2014کو دی اویسس گوادر کے پرنسپل اور ماہر تعلیم زاہد آسکانی کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا گیا۔ زاہد آسکانی نے تعلیم امریکا سے حاصل کی مگر انہوں نے خدمات کے لیے گوادر کا چناؤ کیا اور علم اور شعور پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا تعلق پنجگور سے تھا۔ ان کی درسگاہ سے بے شمار لڑکے اور لڑکیاں علم سے فیضیاب ہو کر نکلیں۔ واقعے کی محرکات کا تاحال پتہ نہیں چلا اور نہ ہی قاتلوں تک پہنچنے کی کوشش کی گئی اور واقعہ ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

یہ تمام واقعات ایک دوسرے کی کڑی لگتے ہیں جن کا بنیادی مقصد بلوچستان کے خواتین کو شعور کی دہلیز اور تعلیمی اداروں سے دور رکھنا ہے۔ اب یہ ریاستی اداروں، صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ایسے عناصر سے کیسے نمٹتی ہے۔ اور واقعات کا سدباب چاہتی ہے۔ مجھے ظہور بلیدی کا ٹویٹ یاد آیا”ہم بلوچ بچوں کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں“۔ تو جناب یہ کون لوگ ہیں جو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرتعلیمی درسگاہوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان کی بچیوں کو تعلیمی میدان سے دور رکھنے کے درپے ہیں۔ سراغ تو لگائیے حضور۔۔ بیانات دینے سے بات تو نہیں بنتی۔