|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2019

بلوچستان میں رواں برس اچھی بارشیں ہوئیں البتہ نقصانات بھی زیادہ ہوئے مگر قحط سے متاثرہ علاقوں میں ان بارشوں سے زمینداروں کی معاشی زندگی میں ایک اچھی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے لیکن یہ مستقل بنیادوں پر بلوچستان کیلئے اس وقت بڑی خوشخبری ہوتی جب بلوچستان میں بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمزہوتے۔

ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے اعلانات اور ان کی سنگ بنیاد رکھنے کی تقاریب ہر دور حکومت میں ہوتی رہیں ہیں مگر یہ ڈیم تعمیر نہیں ہوسکے۔مانگی ڈیم ہمارے سامنے کی مثال ہے جس کی تعمیر کا فیصلہ تقریباً 54سال بعد کیا گیا۔ یہ منصوبہ بنیادی طورپر 1963 ء میں بنایا گیا۔ گزشتہ ادوارمیں کئی بار یہ کوشش کی گئی کہ کوئٹہ کو پانی فراہم کرنے کیلئے منگی ڈیم تعمیر کی جائے۔ زراعت بلوچستان کی معیشت کا شہ رگ ہے تقریباً اسی فیصد یا اس سے زائد آبادی کا انحصار زراعت اور زرعی پیداوار پر ہے۔

باقی تمام شعبے صرف بیس فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرتے ہیں،گزشتہ ستر سالوں میں بلوچستان غذائی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہوسکا۔ اس کی بنیادی وجہ سابقہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے جو ضروری وسائل فراہم نہیں کرسکے۔ دوسری وجہ بلوچستان میں پانی کی قلت ہے، بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین کاشت کاری کے لئے موجود ہے لیکن اس کو آباد کرنے کے لئے پانی نہیں ہے۔

1991ء میں صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا جس کے تحت بلوچستان کو دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے مزید ساٹھ ہزار کیوسک پانی ملنا تھا۔ آج دن تک یہ پانی نہیں مل سکا۔ اس اضافی پانی کا استعمال سندھ اور پنجاب میں ہورہا ہے کیونکہ اس کو استعمال میں لانے کیلئے بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ گزشتہ وفاقی حکومتوں نے تعمیر ہی نہیں ہونے دیا، ان کے لئے ضروری وسائل مہیا نہیں کیے۔

ایسے میں صوبائی حکومت کو مزید کسی تساہل کا مظاہرہ نہیں کرنا چائیے، یہ ضروری ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں تمام دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیے جائیں۔ یہ چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم ہوں، چیک ڈیم نہ ہوں کیونکہ دنیا بھر میں چیک ڈیم کا نظام مکمل ناکام ہوچکا ہے۔چیک ڈیم سے زراعت کی ترقی نا ممکن ہے اس لئے بلوچستان میں سینکڑوں کی تعداد میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں جس سے زیادہ سے زیادہ زمین آباد کی جاسکتی ہے۔

سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سیلابی پانی بحرہ عرب میں گرتا ہے۔ 60لاکھ ایکڑفٹ سے زیادہ پانی سمندر میں گرتا ہے اگر ہم اس کا ایک حصہ بھی زراعت اور دوسری ضروریات کے لئے استعمال میں لائیں تو یہ انقلاب سے کم نہ ہوگا۔

گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں 100ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے کے پیکج تھری کے تحت تعمیر ہونے والے 20ڈیموں کی تکمیل کے لئے برج فائنانسنگ اور بسول ڈیم اورماڑہ کے منصوبے کے لئے بھی برج فائنانسنگ کی منظوری دی گئی۔ گزشتہ حکومت نے بھی سوڈیمز تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر یہ وعدہ وفا نہ ہوسکابہرحال بلوچستان میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے جب صوبہ میں پانی وافر مقدار میں موجود ہوگا تو اس سے براہ راست زراعت کے شعبہ میں بہتری آئے گی اور ساتھ ہی بلوچستان میں موجود آبی بحران اور قحط کا بھی خاتمہ ہوگا۔

اگر پہلے صوبائی حکومتیں ڈیمز پر توجہ یتے تو آج بلوچستان قحط سالی اور پانی جیسے بحرانات سے دوچار نہ ہوتا۔موجودہ حکومت ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ آنے والے برسوں میں پانی بحران کا مکمل خاتمہ ممکن ہوسکے۔