|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2019

گزشتہ دودہائیوں سے ملک میں کرپشن کی شور سنائی دے رہی ہے، یہ پہلی حکومت نہیں کہ جو کرپشن سے پاک نظام کا دعویٰ کررہی ہے بلکہ اس سے قبل بھی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے جمہوری وغیر جمہوری حکمرانوں نے عوام کو اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ کرپٹ لوگوں کا کڑا احتساب ہوگا۔جس کرب سے عوام گزررہی ہے۔

انہوں نے کچھ بھی نہیں بھولا، نواز شریف نے جب 1997ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی تو انہوں نے ملک کو قرض سے نجات دلانے،اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کا نعرہ لگایا اور ملک کے سرمایہ کاروں اور عوام سے اپیل کی کہ اس مہم میں حصہ لیکر پیسہ دیں تاکہ ملکی قرضہ اتار کر ہم دنیا کے سامنے سر اٹھاکر چل سکیں اور اس مہم کی تشہیربھرپور انداز میں کی گئی بینکوں کے باہر بڑے بڑے بینرز آویزاں کئے گئے، اشتہارات چھپوائے گئے۔ ملک کے تاجروں اور عوام نے بڑی امید کے ساتھ اس مہم میں بھرپور حصہ لیا مگر آج تک پتہ نہیں چلا کہ وہ رقم کہاں گئی یوں اس مہم کا خاتمہ آسانی سے کردیا گیا۔

اس دوران نوازشریف کی حکومت نے کرپشن کا سارا الزام پیپلزپارٹی پر لگایا کیونکہ دونوں جماعتیں سیاسی میدان میں ایک دوسرے کی سخت حریف تھیں۔ 1999ء میں جنرل مشرف نے نوازشریف کی حکومت کاخاتمہ کرتے ہوئے اسے کرپٹ اور ملک دشمن قرار دیا تھا، اس طرح پھر ایک بار عوام کو نوید سنائی گئی کہ اب کرپٹ حکمرانوں سے انہیں چھٹکارا مل جائے گا اور عوام کے تمام مسائل حل کئے جائینگے، مہنگائی، بیروزگاری کا خاتمہ کردیا جائے گا جبکہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔

دس سال تک حکومت پر براجمان پرویز مشرف نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ مشرف کے خلاف عدلیہ تحریک چلی اور سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر نظر آئیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے پرویزمشرف کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لیا،پھر مشرف کی رخصتی ہوگئی مگر ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ملک مقروض ہی رہااور معاشی صورتحال اسی طرح ہی رہی۔

ملک میں اب تک کرپشن کے خاتمے کے صرف دعوے ہی کئے جارہے ہیں پی ٹی آئی نے جب حکومتی منصب سنبھالا تو یہ وعدہ کیا کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ملک میں معاشی تبدیلی لائی جائے گی جس سے ملک بحرانات سے نکل جائے گا اور یہ دعوے ہر روز حکومتی وزراء کرتے آرہے ہیں۔ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ تبدیلی کے نام پر دہائیوں سے حکمران عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں، ملکی معیشت مکمل مفلوج ہوکر رہ گئی ہے قرضوں کا حجم بڑھتا جارہا ہے، روپے کی قدر گرتی جارہی ہے، مہنگائی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے، سرمایہ کاری کے مواقع کم نظر آرہے ہیں بلکہ اس صورتحال میں مزید سرمایہ کارپریشانی میں مبتلا ہورہے ہیں۔

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ 10 سالہ کرپشن کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ کمیشن میں ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے اراکین شامل ہوں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کیا اگر میری جان بھی چلی جائے تو میں نے ان چوروں کو نہیں چھوڑنا۔عمران خان نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کے اصول آج ہمارے ملک میں نہیں لیکن مغربی دنیا میں موجود ہیں۔

مدینے کی ریاست میں حکمران جواب دہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست فلاحی ریاست تھی امیر سے زکوٰۃ لے کر غریب پر خرچ کیا جاتا تھا، غریبوں، یتیموں کی ذمہ داری ریاست لیتی تھی اور اسے احساس تھا، میرا نظریہ بھی پاکستان کے لیے وہی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ مخالفین ابھی سے پوچھتے ہیں کدھر ہے مدینہ کی ریاست، مدینہ کی ریاست فوراً ہی وجود میں نہیں آئی تھی اسے وقت لگا تھا اور یہ وقت پاکستان میں بھی لگے گا۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بڑے بڑے برج آج جیلوں میں ہوں گے۔عمران خان نے کہا کہ ہم ملک کو بہتر کرنے کے لیے شدید ذہنی دباؤ سے گزرے ہیں۔ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے ابھی تو روپیہ کی قیمت کم گری ہے اگر ہم کوشش نہ کرتے تو روپے کی قدر بہت زیادہ گر جاتی۔انہوں نے کہا کہ میں ان کو این آر او نہیں دے رہا اس لیے ان کو تکلیف ہو رہی ہے۔ اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان این آر او نے پہنچایا ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان بے انتہا مقروض ہو چکا ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف دونوں ہی کرپشن کے مقدمات میں اس سے پہلے بھی اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کر سکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ مشرف کی جانب سے گزشتہ حکومتوں کو دو مرتبہ این آر او دیا گیا جو پاکستان کے لیے نقصان کا باعث بنا۔ دونوں نے مل کر نیب کو بنایا اور آپس میں طے کیا کہ پانچ سال تم پورے کرو پانچ سال ہم پورے کریں گے۔ دونوں حکمرانوں نے گزشتہ 10 سال میں 24 ہزار ارب روپے کا ملک کو مقروض کیا۔ سال 2008 میں ملک کا قرضہ 6 ہزار ارب تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ جب ملک کا قرضہ اوپر جا رہا تھا تو ان کی جائیدادیں بھی اوپر جا رہی تھیں۔ نواز شریف کے بچوں نے 26 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی۔ پاکستانیوں کی 10 ارب ڈالر کی بیرون ملک رقوم موجود ہیں جس کی تمام تر معلومات ہم جمع کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے کمیشن بنانے کا اعلان تو کیا گیا مگر یہ پہلی بار نہیں ہورہا،عوام تو اپنے اوپر سے مہنگائی کا بوجھ ختم کرنے کی خواہش رکھتی ہے اور قومی خزانے سے لوٹی گئی رقم کی واپسی چاہتی ہے جس کے دعوے پہلے بھی کئے گئے مگر نتائج صفر ہیں۔ اگر دس سالہ ریکارڈ طلب کرکے پیسہ واپس لایا گیا تو یہ واحد حکومت ہوگی جو تاریخ رقم کرے گی۔ امید پر دنیا قائم ہے سو عوام ایک اور آس لگانے بیٹھ جائے گی۔

البتہ عوام موجودہ صورتحال میں کچھ اور بھی تقاضہ کررہی ہے کہ جس طرح ان پر روزانہ ٹیکس لگائے جارہے ہیں جبکہ ان کی آمدن کم ہے،اس کا فوری علاج کیاجائے تاکہ انہیں برائے راست فائدہ پہنچے، یہ کمال حکومت کو دکھانی ہوگی، ملک کو لوٹنے والوں کو یقینا نہیں چھوڑنا چاہئے مگر جنہوں نے این آراو دیا تھا وہ اس دور میں پرویز مشرف کے ساتھ تھے انہیں بھی قانون کی گرفت میں لایاجائے تاکہ ریاست کے ساتھ کوئی آئندہ نہ کھیل سکے کیونکہ شفاف احتساب ہی نظام کو بہترین ٹریک پر لاسکتا ہے۔