|

وقتِ اشاعت :   June 18 – 2019

گزشتہ دس سالوں کے دوران ہونے والی کرپشن کے خلاف تحقیقات کو سراہا جارہا ہے کیونکہ ایک اچھا عمل ہے۔جس طرح سے کرپشن کے الزامات سیاستدانوں پر لگ رہے ہیں یہ ان کی ساکھ کو مجروح کررہا ہے اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں کرپشن نہیں ہوئی ہے تو یقینا وہ بھی اپنے دفاع میں قانونی راستہ اپناتے ہوئے دلائل اور ثبوت پیش کرینگے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

اپوزیشن جماعتیں بجائے اس عمل کے خلاف جارحیت کا راستہ اپنائیں بلکہ ایک تاریخ رقم کرکے احتسابی عمل کا حصہ بنیں۔ دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں ایسے وزراء بھی موجود ہیں جو عرصہ دراز تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی کابینہ کا حصہ رہے ہیں جن کے ذریعے تحقیقات میں مدد ملے گی۔ موجودہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ طویل عرصہ تک پیپلزپارٹی میں مشیر خزانہ کے عہدے پر فائزرہ چکے ہیں انہیں سب معلوم ہوگا کہ جو قرضے دس سالوں کے دوران لئے گئے تھے وہ کہاں اور کس پر خرچ کئے گئے یا کیسے کرپشن کی نظر ہوگئے۔

لہٰذا انہیں تحقیقاتی کمیشن کا حصہ بنایاجائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس احتسابی عمل کو مزید وسعت دیتے ہوئے مشرف کے دورمیں بھی لئے گئے قرضوں کاحساب طلب کریں تو احتساب کی شفافیت کی پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں وہ دم توڑدینگے کیونکہ مشرف دور میں بھی بہت قرضے لئے گئے جن کا کوئی حساب نہیں۔

گزشتہ روز ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان نے قرضوں کو ملکی بحرانات کی وجہ ٹہرایا ہے ان کا کہنا ہے کہ قرضوں سے آزاد ہوگئے تو ملکی ترقی کا سفر کوئی نہیں روک سکے گا،انکوائری کمیشن کو مکمل اختیارات دئیے جائیں گے، فیکٹ فائنڈنگ کے بعدقوم کے مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان سے بابر اعوان نے ملاقات کی جس میں انکوائری کمیشن کی تشکیل سے متعلق آئینی وقانونی امور پرمشاورت کی گئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا معاشی استحکام پہلی اورآخری ترجیح ہے، ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلنے والوں سے تحقیقات قومی تقاضا ہے، انکوائری کمیشن اپنی طرز کا پہلا بامقصد کمیشن ہوگا۔اس موقع پر بابر اعوان نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے تشکیل کے فیصلے کوعوامی سطح پربے حد پذیرائی ملی، عوام کو بتانا ہوگا کہ ان کے نام پرلیا گیا اربوں ڈالرکا قرض کہاں گیا؟

بابر اعوان نے کہا کہ قرض کھانے والے منی لانڈرنگ کرتے رہے،قوم غریب ہوتی گئی، قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹنے والوں کا احتساب ناگزیر ہے، احتساب کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ احتساب ادارے کرتے ہیں،اصلاحات کرناحکومت کاکام ہے جس پر وزیر اعظم نے کہاکہ حکومت اصلاحاتی ایجنڈے پرکوئی سمجھوتا نہیں کریگی۔

عوام عرصہ دراز سے کرپٹ حکمرانوں سے نجات چاہ رہے ہیں کیونکہ ماضی میں جتنے بھی قرضے لئے گئے ان کا خمیازہ عوام نے بھگتا ہے اور آج بھی غریب عوام ہی قرضوں کے باعث بڑھنے والی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے، عوام بلاتفریق احتساب کا مطالبہ کررہی ہے تاکہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس قومی خزانے منتقل کرکے انہیں عوام کی ترقی وفلاح بہبود پر خرچ کیاجاسکے۔ اب عوام مزید بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں اس لئے شفاف احتساب کے ذریعے سب سے حساب لیاجائے۔