|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2019

امریکہ اور ایران کے درمیان حالات انتہائی کشیدگی اختیار کرتے جارہے ہیں ایک ایساماحول پیدا ہوچکا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران پر امریکی دبا ؤ مزید بڑھے گا کیونکہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں مزید ایک ہزار فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ جنگی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے جس کی سب سے زیادہ فکر پاکستانی سیاستدانوں کو ہونی چاہئے کہ اگر اس میں شدت آئی تو کیسی حکمت عملی اپنانی چاہئے مگر بدقسمتی سے اس وقت ملک میں سیاسی کشیدگی چل رہی ہے۔

حکومت نے کرپشن کے خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کمیشن بنادیا ہے جبکہ اپوزیشن اس عمل کو اپنے خلاف قرار دے رہی ہے، بجٹ اجلاس بھی روزانہ شور شرابہ کی نظر ہورہا ہے دوسری جانب سیاسی بیٹھک لگ رہی ہے جس میں اپوزیشن جماعتیں رواں ماہ کے آخر میں اے پی سی طلب کرکے حکومت کے خلاف تحریک چلانے جارہی ہیں جبکہ حکومت نے بھی کمرکس لی ہے کہ اپوزیشن کے رویہ پر اسی طرح ہی جواب دیا جائے گا۔

دونوں جانب سے تلخ جملوں اور بیانات بھی سامنے آرہے ہیں اب اس پوری صورتحال میں خطے پر جنگی بادل منڈلانے پر کسی طرح بھی غور نہیں کیاجارہا کہ امریکہ اور ایران کشیدگی یا جنگی صورتحال کے یہاں کیا اثرات پڑسکتے ہیں، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کا ایک دوسرے کی پالیسی سے اختلاف رکھنا جمہوری حق ہے مگر اس وقت ان کا ساتھ بیٹھنا ضروری ہے کہ خطے میں قیام امن اور پاکستان کو مزید جنگی حالات سے کیسے بچایا جائے۔

پاک ایران تعلقات بہت پرانے ہیں جبکہ پاکستان نے اس سے قبل دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور بہت نقصانات بھی اٹھائے ہیں جس کا متحمل اب ملک مزید نہیں ہوسکتا بلکہ قیام امن کے ذریعے ہی سیاسی اور معاشی استحکام آسکتا ہے جس کیلئے سیاسی قائدین کو سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی پر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ یی نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر دباؤبڑھانے سے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے کا خطرہ ہے۔

امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ نے حال ہی میں ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے خلیج فارس میں آئل ٹینکروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ایران کسی کے خلاف جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری دیکھ سکتی ہے کہ امریکہ اور ایران کے رویہ میں کتنا فرق ہے۔خلیج عمان میں جمعرات کو دو تیل بردار ٹینکروں پر حملے کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مزید ایک ہزار اضافی فوجی بھیج رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ان ٹینکروں پر بلااشتعال حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا جبکہ تہران کی جانب سے اس الزام کو مسترد کر دیا گیا تھا۔امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناہن کے مطابق اِن فوجی دستوں کی تعیناتی ایرانی فوج کے جارحانہ رویے کے ردعمل میں کی گئی ہے۔

ملکی سیاستدانوں کو اس جانب دیکھنا ہوگا کہ ملکی سلامتی اور آنے والے حالات کا کس طرح سے مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ ایران کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں اس امر کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان سے کوئی تقاضہ کرے اس وقت پاکستان مکمل طور پر غیر جانبدار ہے مگر جنگی اثرات ملک پر پڑسکتے ہیں۔

ملک کی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر ملکی مفادمیں فیصلہ کریں تاکہ آنے والے چیلنجز سے نمٹاجاسکے۔ خطے میں بدلتی صورتحال سے آنکھیں نہیں چھرائی جاسکتیں اس لئے سیاسی تناؤکو ختم کرکے قومی سلامتی پر توجہ دیں۔