بلوچستان کی پسماندگی کی اصل وجہ گزشتہ حکومتوں کی عدم توجہی رہی ہے۔اول روز سے بلوچستان کے دوردراز علاقوں کو نظرانداز کرکے انہیں ترقی کے ثمرات سے دور رکھا اگرچہ جمہوری نظام میں صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی سب ہی نے ترقی کی تو غلط نہیں ہوگا۔
سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ جب ایم پی اے ترقیاتی اسکیم کا آغاز کیا گیا تو سیاست کرپٹ ہوکر رہ گئی کیونکہ زر کمانے کی لالچ نے ہر دولت مند شخص کو ایوان کا راستہ دکھایا، اس راستہ کے ذریعے ان کو کروڑوں روپے ملتے جو ان کا صوابدیدی فنڈز کہلاتاتھا جس کا استعمال ان کی اپنی مرضی پرمنحصر رہا ہے کسی کے وہ پابند نہیں تھے اور نہ ہی اس رقم کو انہوں نے عوام کا سمجھا بلکہ اپنی ملکیت سمجھ کر اس سے مزید جائیدادیں بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی کاروبار کو وسعت دیا، اس طرح ایک صاف ستھرا سیاست کا ماحول کرپشن کی وجہ سے آلودہ ہوکر رہ گیا۔
یہ ایک اچھا عمل ہے کہ اب ایم پی ایز کے ذاتی فنڈز کو ختم کردیا گیا ہے کم ازکم کرپشن کا ایک راستہ تو روک دیا گیا ہے، ماضی میں جس طرح ایم پی ایز کو فنڈزفراہم کئے گئے اگر اب اس فنڈ کوترقی کے لئے حکومت خرچ کر ے اور اس میں وزیر اور ایم پی ایز کا عمل دخل نہ ہو،اس رقم کو صرف معاشی منصوبوں پر خرچ کیاجائے تاکہ ہر حلقے میں پیداوار میں اضافہ ہو‘ لوگوں اور ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہو اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو روزگار ملے۔
بلوچستان کی دیہی ترقی‘ انسانی وسائل کی ترقی‘ تعلیم و تربیت اور علاج و معالجے پر اس رقم کوخرچ کیا جائے۔ اس رقم کو وزراء اور ایم پی اے حضرات کے ذاتی اسکیموں پر خرچ نہ کیا جائے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس رقم کو ضائع نہ کیاجائے۔ ایم پی اے اسکیم ختم ہونے کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کرپٹ عناصر انتخابات میں حصہ لینا بند کردیں گے اور اگر ان کو یہ معلوم ہو کہ سیاست میں آنے کے بعد ان کو اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑے گا تو وہ سیاست کو خیرباد کہہ دینگے۔
ریاست کی دولت کو ایم پی اے اور وزراء کی دسترس سے باہر رکھنا ضروری ہے قومی دولت کو صرف اور صرف معاشی منصوبوں پر خرچ کیا جائے تاکہ بلوچستان کے عوام خوشحال ہوں اس کا راز صرف اور صرف دیہی ترقی میں ہے جہاں اسی فیصد سے زائد آبادی رہتی ہے۔ دوردراز علاقوں میں پانی کے وسائل کو بڑے پیمانے پر ترقی دی جائے۔ ساحل مکران پر پانچ چھ بڑے بڑے بند تعمیر کیے جائیں تاکہ ساحل مکران ترقی کا محور بن جائے۔
ماضی میں کرپشن کی وجہ سے اکڑا کور ڈیم ناکام ہوا اس کی صفائی اور تعمیر نو کے لئے کوئی کام نہیں کیاگیا اگر چند ٹریکٹر لگا کر وہاں سے ریت صاف کر لیاجاتا تو ممکن تھا کہ گوادر میں پانی کی قلت اتنی شدید نہ ہوتی۔ ریت نہ نکالنے کی وجہ سے اکڑہ کور ڈیم مکمل طورپر تباہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری گزشتہ حکومت اور حکومتی اہلکاروں پر ہے۔
اس کے ساتھ اگر دریائے دشت پر نیچے ایک اور ڈیم بنایا جاتا تو کم سے کم ساحلی علاقے کے لوگوں کی پانی کی ضروریات نہ صرف پوری ہوتیں بلکہ اس کے قرب و جوار میں ایک بہت بڑا گرین بیلٹ بن چکا ہوتا۔ دیہی علاقوں کی ترقی کا بنیادی جز تعلیم ہے جہاں ریذیڈیشنل اسکول بنائے جائیں یعنی ہر 100ملین پر ایک اسمارٹ اسکول تعمیرکیاجائے۔ یہ اسکول پرائمری سے لے کر 12ویں جماعت تک علم کی ضروریات پوری کریں۔ اسی طرح ہر ضلع میں تربیتی مراکز حکومت قائم کرے۔
اگر حکومت بلوچستان اس مد میں بین الاقوامی امداد طلب کرے تو بین الاقوامی برادری بلوچستان کے عوام کو مایوس نہیں کرے گی کیونکہ بلوچستان معاشی ترقی کے حوالے سے آنے والے دنوں میں ایک الگ مقام پر پہنچ جائے گا اس وقت بھی مختلف ممالک بلوچستان کے اہم منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہے ہیں جو بلوچستان کی دیہی ترقی کیلئے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کے عزم کا اظہار کیا ۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے وفاقی حکومت کردار ادا کررہی ہے ماضی کے حکمرانوں نے بلوچستان کی پسماندگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، صرف دعوے کئے مگر بلوچستان کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعتیں بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے بہت سے منصوبوں پر کام کررہی ہیں آئندہ پانچ سالوں میں بلوچستان میں ترقی کانیادور شروع ہوگا۔
اس سے قبل بھی وزیراعظم عمران خان نے کوئٹہ کے دورہ کے موقع پر کہا تھا کہ بلوچستان بہت پھیلا ہوا علاقہ ہے جب تک یہاں کے دیہی علاقوں پر سرمایہ کاری اور ترقیاتی اسکیموں کا جال نہیں بچھایا جائے گا اس وقت تک ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے اور نہ ہی بلوچستان ترقی کرپائے گا جو ایک حقیقت ہے اس لئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں پر خاص توجہ دیتے ہوئے وہاں ترقیاتی اسکیموں کا آغاز کیاجائے اورجاری منصوبوں کو مکمل کرکے دیہی علاقوں کی ترقی کو یقینی بنایاجائے۔