پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا ہے، ملکی سیاست احتجاج کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے حکمران جماعت کو ہمیشہ اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم دیا گیا،یہ الگ بات ہے کہ سیاسی وفاداریاں کس طرح بدلتی رہی ہیں، کوئی سیاسی شخصیت کسی جماعت میں شمولیت کرتے وقت اپنے قائدکے دفاع اور حمایت میں چار قدم آگے بڑھ کر اس قدر بولتاہے کہ گویا ایسا نظریاتی ورکرشاید کبھی نہ پیدا ہواہواور وقت آنے پر اسی قائد پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ماضی کو ذرا بھر بھی یاد نہیں رکھا جاتا کہ کبھی اس کے صف میں کھڑے تھے۔
یہ بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی خاصیت رہی ہے کہ جس نے زیادہ خلاف بولا اسی کو اہم عہدے سے بطور تحفہ نوازا گیا یعنی سیاسی اخلاقیات نامی کوئی شہ نہیں،سونے پہ سہاگہ اسے سیاسی فراخدلی سے تشبیہ دی جاتی ہے یہ سیاسی فراخدلی شاید دنیا میں ہمارے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ روایت اب بھی اسی طرح جاری ہے کسی بھی جماعت نے اس کو چیلنج نہیں کیا بھلا کیوں کرے جب بہترین کھلاڑی مل رہا ہے تو اسے موقع فراہم کرتے ہوئے اپنادفاعی سپاہی بنایا جائے تاکہ ماضی کے گناہوں کو دھونے کے ساتھ ساتھ اچھی کامینٹری کرکے یہ ثابت کرے کہ ماضی کا قائد کرپٹ اور جھوٹا تھا جبکہ موجودہ نیک اور پارسا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے چھپاکر بھی نہیں چھپایاجاسکتا بلکہ تاریخ کا حصہ بنتاجارہا ہے آگے بھی اسی طرح سیاسی کلا بازیوں کا موسم آتا رہے گا اور سیاسی تماشا لگتا رہے گا۔ گزشتہ روزاسلام آباد میں حزب اختلاف سے وابستہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی ایک کل جماعت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کی صدارت جے یو آئی (ف) کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کی، اے پی سی حسبِ روایت اسی طرح ہی ثابت ہوئی شاید اس بار یہ توقع کی جارہی تھی کہ اپوزیشن کی اس بیٹھک سے بہت بڑا فیصلہ سامنے آئے گا مگر اس میں واحد اعلامیہ جس پر سیاسی ہلچل پیدا ہوگیا ہے وہ ہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانا۔
متحدہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جگہ آئینی اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے نیا چیئرمین لانے کا فیصلہ کیا ہے، اے پی سی اعلامیہ کے مطابق25 جولائی 2019ء کو دھاندلی زدہ انتخابات کیخلاف متفقہ طور پر یوم سیاہ منایاجائے گاجوکہ پہلے بھی اپوزیشن جماعتیں کرچکی ہیں، بجٹ کیخلاف تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج جاری رکھیں گی حالانکہ اب بھی ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جوکہ اعلامیہ کے خاص متن میں شمار نہیں کیاجاسکتا، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جعلی مینڈیٹ،دھاندلی زدہ نااہل حکومت کی پیداکردہ اذیت ناک مہنگائی اور معاشی مشکلات سے عوام کو نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی جائیگی مگر یہ واضح نہیں کہ کس طرح عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے اذیت سے نکالاجائے گا۔
پہلے بھی اس طرح کے احتجاج ہوتے رہے ہیں لہٰذا یہ بھی روایتی فیصلہ ہے،اعلامیہ کے مطابق پہلے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم شروع کریں گی، پارلیمانی نظام حکومت اور اٹھارویں ترمیم کیخلاف اعلانیہ اور پس پردہ کوششوں کی بھرپور مزاحمت کی جائیگی اس کے متعلق بھی حکمت عملی واضح نہیں کی گئی کہ مزاحمت کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ اے پی سی کے اعلامیہ میں دیگر فیصلے بھی موجود ہیں مگر سب سے اہم اس وقت چیلنج حکومت کو درپیش ہے وہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی ہے کیونکہ اپوزیشن سینیٹ میں مضبوط پوزیشن میں کھڑی ہے جس کی تبدیلی کیلئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے ہی اتفاق کرلیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ کو پیپلزپارٹی کی سب سے زیادہ حمایت حاصل تھی جس کیلئے پیپلزپارٹی نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بعد ملک کی دیگر جماعتوں نے بھی صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ دیا، اُس وقت یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ بلوچستان ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے اس لئے ایوان بالا کے اس عہدے کو بلوچستان کو دیاجائے تاکہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکے بہرحال سیاسی فیصلے مفادات کے تحت کئے جاتے ہیں پہلے ترجیحات کچھ اور تھے جو اب بدل چکے ہیں اس لئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھی تبدیل کیاجارہا ہے اس سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے بلوچستان نہیں بلکہ انہی سیاسی جماعتوں کی ضرورت تھی جسے پسماندگی اور محرومیوں کی آڑ میں سیاسی طور پر کھیلا گیا۔
چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ کو بے احترامی سے عہدے سے ہٹایا گیا تو صوبے کے لوگ اس فیصلے کو مثبت انداز میں نہیں دیکھیں گے۔ بلوچستان کی نمائندگی کو مذاق بناکر اس کے ساتھ نہ کھیلا جائے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی چیئرمین سینیٹ کے ساتھ کھڑی ہے اور تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے کرکے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان حالات میں کوئی غلط فیصلہ کرکے بلوچستان کے لوگوں کو یہ پیغام نہ دیا جائے کہ ان کی نمائندگی چھینی جارہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی ایک آئینی مدت ہے جسے مکمل کرنے دینا چاہیے۔مدت مکمل ہونے کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنا فیصلہ کریں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی اپنی جماعت کے چیئرمین سینیٹ کو بچانے کیلئے اپوزیشن کو قائل کرسکے گی فی الوقت ایسے امکانات نظر نہیں آرہے البتہ معجزہ سیاست میں تو نہیں ہوسکتا۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اس سے قبل آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کرچکے ہیں دونوں رہنماؤں کے درمیان یقینا یہ بات زیر بحث آئی ہوگی مگر نتیجہ وہی نکلا ہے جس کا فیصلہ اے پی سی میں کیا گیا کیونکہ پیپلزپارٹی کی رضا مندی کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔
بلوچستان کے جذبات کے ساتھ توہمیشہ کھیلا گیا ہے کیونکہ ملک کی بڑی جماعتیں اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتی ہیں اگر وہ بلوچستان کے ساتھ اتنے مخلص ہوتے تو شاید آج صوبہ کی حالت یہ نہ ہوتی۔ بہرحال یہ اپوزیشن کا سیاسی حق ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے جارہاہے۔
اب بلوچستان عوامی پارٹی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملاقات کرکے کس حد تک کامیابی حاصل کرے گی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔جو سیاسی منظر نامہ نظر آرہا ہے اس وقت اپوزیشن کے پاس یہی ایک تگڑا فیصلہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اس لئے انہوں نے یہی کارڈ کھیل لیا۔