گزشتہ روزافغان دارالحکومت کابل کے حساس علاقہ پل محمود خان میں واقع وزارت دفاع کی عمارت کے قریب زور دار دھماکہ ہوا۔دھماکے اورفائرنگ کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق جبکہ80کے قریب زخمی ہوئے۔ جاں بحق اور زخمیوں میں افغان فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ و ملازمین‘ سیکیورٹی اہلکاراور صحافیوں کے علاوہ اسکول کے کئی بچے بھی شامل ہیں۔
افغان اسپیشل فورسز نے فوری کاروائی کرتے ہوئے علاقہ کو گھیرے میں لے کرجوابی کاروائی شروع کی اور دونوں اطراف سے فائرنگ کا شدید تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ پیر کی صبح تقریباً9 بجے مقامی وقت کے مطابق کابل شہر کے حساس علاقہ پل محمودخان میں واقع افغان وزارت دفاع کی عمارت کے قریب بارود سے بھری ٹرک کا زوردار دھماکہ کرایا گیا جس کے بعد کم از کم تین دہشت گردوں نے افغان وزرات دفاع سے متصل ایک سرکاری عمارت میں داخل ہوکر اندھدھند فائرنگ شروع کی۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ انتہائی طاقتور اور زوردار تھا جس سے پورا شہر گونج اْٹھا اور دھماکے کی آوازد دور دور تک سنی گئی جبکہ کئی قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ بم دھماکہ میں زخمی ہونے والوں میں چند افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے اور ہلاکتوں میں مزید اضافہ کا خدشہ ظاہرکیا گیا ہے۔
ادھر ایک سینئرافغان صحافی نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دھماکہ میں 40 افراد جاں بحق اور 80 زخمی ہوئے تاہم فوری طورپر سرکاری طورپرہلاکتوں کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران کابل میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات پیش آئے ہیں اس سے قبل کابل میں سفارتی علاقے میں ٹینکر بم کے دھماکے میں 100کے لگ بھگ افراد ہلاک اور 500کے قریب زخمی ہوئے تھے اس حملے کے بعد کابل کے شہریوں نے سیکورٹی کی مخدوش صورت حال پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیاتھا جس پر کابل پولیس نے بغیر کسی اشتعال کے مظاہرین پر فائر کھول دیا جس سے آٹھ مظاہرین گولیاں لگنے سے جاں بحق ہوئے تھے۔
یہ حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے کہ کابل پر طالبان اور داعش کے دہشت گردوں کا قبضہ ہے اور حکومت ان کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہے۔ یہ دہشت گرد جب چاہیں‘ جہاں چاہیں حملہ کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ پارلیمان‘ اسپتال‘ فوجی ٹھکانے ان کے حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
حکومت ناکام ہوچکی ہے اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت سے قاصر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ افغان ملت نے اپنے مسائل خود حل نہیں کیے ان کی نظریں ہروقت امریکا اور نیٹو ممالک کی طرف لگی رہتی ہیں کہ ان کی افواج خطے میں آئیں گی اور افغانستان میں امن بحال کریں گی۔ افغانستان کی صورت حال ہر لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے۔ افغانستان میں عالمی فوج کی موجودگی کے باوجود امن وامان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آرہی جواس بات کا واضح ثبوت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی سیکیورٹی کو سنبھالنے والی قوتیں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکیں بلکہ اس میں مزید شدت دیکھنے کو مل رہا ہے جوکہ افغانستان سمیت خطے کیلئے خطرناک ہے۔
افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے کیلئے جب تک افغان قیادت خود فیصلوں میں آزاد نہیں ہوگی تب تک صورتحال میں بہتری کے امکانات نہیں آسکتے، دیگر ممالک پر سیکیورٹی کے حوالے سے انحصار کے نتائج افغان عوام کافی عرصے سے بھگت رہی ہے اور اس جنگ نے پورے خطے کو بدامنی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کا اظہار ہمیشہ پڑوسی ممالک کرتے آئے ہیں خاص کر پاکستان اس سے شدید متاثر ہوا ہے۔
اگرچہ حال ہی میں مذاکرات کے دور ہوئے ہیں مگر اس میں عالمی قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہ کس طرح سے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جائے تاکہ خطے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا خاتمہ کیا جاسکے۔