وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کے حوالے سے اعدادوشمار جاری کر دئیے جن کے مطابق مہنگائی مقررہ ہدف سے بھی بڑھ گئی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق مئی میں مہنگائی میں اضافہ کی شرح 9.1 فیصد تھی جو کہ جون میں کم ہو کر 8.9 فیصد پر آ گئی۔
گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگائی 6 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن مہنگائی مقررہ ہدف کے برعکس 7 اعشاریہ 34 فیصد رہی جبکہ صرف جون کے دوران مہنگائی میں 8 اعشایہ 89 فیصد اضافہ ہوا۔جون میں سالانہ بنیادوں پر گیس 85 فیصد مہنگی ہوئی اور پیاز 72 فیصد، لہسن 64 فیصد، دال مونگ 43 فیصد مہنگے ہو گئے۔ چینی کی قیمت میں 33 فیصد، سی این جی 32 فیصد مہنگی ہوئی۔سونے کی قیمت میں 26 فیصد اضافہ ہوا جبکہ آلو اور گوشت 13 فیصد اور گھی 7 فیصد مہنگے ہوئے۔ اسی طرح تعلیمی اخراجات ساڑے 9 فیصد اور ٹرانسپورٹ کرائے 16 فیصد بڑھ گئے۔ ادویات کی قیمتوں میں بھی 8 فیصد اضافہ ہوا۔ادارہ شماریات کے مطابق پانی، بجلی اور گیس کے بلوں میں 9 فیصد اضافہ کیا گیا۔اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے مہنگائی پر نوٹس لیتے ہوئے خصوصی مہم شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
وزیر اعظم آفس سے جاری کردہ مراسلہ کے مطابق سربراہ مملکت نے بڑھتی ہوئی مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور دیگر بد عنوانیوں کی روک تھام کے لیے تمام صوبائی چیف سیکرٹریز بشمو ل چیف کمشنر اسلام آباد کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اگر دیکھاجائے تو اب تک قیمتوں پر کنٹرول، اشیائے ضرورت کی فراوانی اور ان کے معیار پر توجہ نہیں دی جارہی خصوصاً بلوچستان میں توجنگل کا قانون رائج ہے۔ جعلی اشیاء کے انبار تقریباً ہر دکان اور اسٹور میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں وجہ یہ ہے کہ کمپنی کی اشیاء پر منافع کی شرح دس سے بیس فیصد تک ہے جبکہ جعلی اشیاء میں منافع کی شرح ستر سے لے کر اسی فیصد ہے۔
زیادہ منافع کے لالچ میں دکاندار جعلی اشیاء فروخت کررہے ہیں۔ سب سے پہلے حکومت کا کام بلا کسی امتیاز کے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ہے چاہے وہ حکومتی پالیسیوں کا حامی ہو یا مخالف، اس کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت حکومت اور حکومتی اداروں کا فرض بنتاہے۔ اس کے بعد حکومت کا کام شہریوں کی خدمت کرنا ہے۔
اس میں عوام کی بنیادی ضروریات کے علاوہ معیاری اورسستی اشیاء کی تیاری اور لوگوں تک مناسب دام پر رسائی ضروری ہے۔ حکومت کو اس پر خاص توجہ دینی چائیے تاکہ مہنگائی کامقابلہ غریب عوام کرسکیں۔ بلوچستان ملک کا سب سے غریب صوبہ ہے یہاں بیشتر شہریوں کا دارومدار سرکاری تنخواہ پرہے اس مہنگائی کے طوفان کا قلیل تنخواہ کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، جس طرح مہنگائی کا طوفان آیاہے اس نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔
دوسری طرف گرانفروش مافیا کی چاندی ہوگئی ہے کیونکہ مہنگائی کی آڑ میں اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کیا گیا ہے اور عوام ان کے رحم وکرم پر ہیں۔ بہرحال مہنگائی کا طوفان ایک تسلسل سے جاری ہے اور آئندہ سالوں تک اس کے جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ اس طرح ذخیرہ اندوز اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے گرانفروش مافیا عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہینگے۔
حکومت کو چائیے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دے تاکہ وہ بازاروں کا روزانہ دورہ کرکے اشیاء کے معیاراور قیمتوں کا جائزہ لے اورجو بھی اس پر عملدرآمد نہیں کررہا اس کے خلاف سخت کارروائی کرکے سزا دے تاکہ گرانفروش مافیا کا خاتمہ یقینی ہوسکے اور عوام کو معیاری اشیاء مناسب داموں دستیاب ہوسکیں۔