|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2019

اپوزیشن کی جانب سے قائم کر دہ رہبر کمیٹی نے 9جولائی کو چیئرمین سینٹ کے خلاف قراراد جمع کرانے اور11 جولائی کو چیئر مین سینٹ کے لئے مشترکہ امیدوار کے نام کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 10 جولائی سے یوم سیاہ کے انتظامات شروع کردئیے جائینگے اور صوبائی سطح پر جلسے 25 جولائی کو منعقد کئے جائیں گے۔وزیر اعظم نے چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی کوٹاسک دے دیا ہے۔

اعظم خان سواتی کا کہنا ہے کہ جس طرح حزب اختلاف کو بجٹ کے معاملے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح عدم اعتماد کی تحریک میں بھی انہیں ناکامی ہوگی۔اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ سینیٹ ممبران کے چہرے بتا رہے ہیں کہ ایوان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور صادق سنجرانی ہی چیئرمین رہیں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم نے انہیں جو ٹاسک دیا ہے اس میں کامیاب ہونگے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے مطابق چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے لئے نمبر گیم واضح ہے تاہم جو رکن پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دے گا اس کیخلاف کارروائی ہوگی۔آصف زرداری نے منحرف ہونے کی صورت میں خیبر پختونخواہ کے سینیٹرز کو وارننگ جاری کر دی ہے۔ن لیگ کے نائب صدر خرم دستگیر خان کاکہنا ہے کہ اگر حکومت کسی رکن کیخلاف منشیات کا کیس بنا کر اور کسی کی وفاداریاں تبدیل کر کے عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی تو یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو گا۔

ملک میں اس وقت شہ سرخیوں میں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک شامل ہے گوکہ اس کے ساتھ جڑے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی زیر بحث ہیں جنہیں اسی کا تسلسل قرار دیا جارہا ہے، حکومتی اراکین بھی زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں جس طرح سندھ میں حکومتی تبدیلی کی باتیں کی جارہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کے بعض اراکین اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ رابطہ میں ہیں نمبر گیم پورا ہونے کے بعد سندھ میں تبدیلی لائی جائے گی۔

گوکہ یہ فی الوقت صرف ایک دعویٰ ہوسکتا ہے اور اپوزیشن کو مزید دباؤ میں لانے کیلئے ایساکہاجارہا ہو مگر جس طرح گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے ارکان کی پی ٹی آئی قائدین سے ملاقاتیں سامنے آئی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب اور سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کے ساتھ رابطے میں ہے مگر فوری طور پر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ سندھ میں کوئی بڑی تبدیلی آسکتی ہے البتہ پنجاب میں اس کے امکانات زیادہ نظر آرہے ہیں۔

دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے لیے ہونے والی خفیہ ووٹنگ سے حزب اختلاف کوشاید کامیابی نہ مل سکے کیونکہ حزب اختلاف کے اندر بھی اتنا اتحاد نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے لیے ہونے والی خفیہ ووٹنگ میں نتیجہ مختلف بھی ہوسکتا ہے یہ اسی تناظر میں کہاجارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے ہیں مگر اس وقت ایوان بالا میں اکثریت اپوزیشن کی واضح نظر آرہی ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن نے احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے جس سے حکومت پر شاید کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا مگر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے اپوزیشن ایک بڑا معرکہ مارنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر اپوزیشن کی تحریک میں کچھ جان آسکتی ہے مگر اس کے باوجود حکومتی تبدیلی کے امکانات کم ہی نظر آرہے ہیں۔

کیونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل صرف دو جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی تعداد دیگر اپوزیشن جماعتوں سے زیادہ ہے مگر یہ تعداد اتنی زیادہ بھی نہیں کہ وہ اِن ہاؤس تبدیلی لاسکیں۔ اگر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی یقینی ہوگئی تو حکومت پنجاب اور سندھ میں اپنے سیاسی کارڈ کھیلے گی یقینا اس سے اپوزیشن جماعتوں کو بھی دھچکا لگے گابہرحال آنے والے چند دن قومی سیاست میں انتہائی اہم ہیں۔