اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرادی، اپوزیشن چیئرمین سینٹ کے امیدوار کا فیصلہ 11 جولائی کو کرے گی جبکہ سیکرٹری سینیٹ محمد انور نے کہا ہے کہ سینیٹ سیکرٹریٹ اپوزیشن کی قرارداد اور ریکوزیشن کا مکمل جائزہ لینے کے بعد آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کریگا۔
منگل کو اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کا مشترکہ اجلاس قائد حزب اختلاف سینیٹ راجہ ظفر الحق کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں باہمی مشاورت سے تحریک عدم اعتماد کی قرار داد اور ریکوزیشن کو حتمی شکل دی گئی۔ اجلاس کے بعد راجہ ظفرالحق،شیری رحمان، مشاہداللہ خان اور سینیٹر جاوید عباسی نے قرارداد اور ریکوزیشن سیکرٹری سینیٹ محمد انور کو پیش کی،تحریک عدم اعتماد کی درخواست جمع کروانے کے لیے اس پر 26 ارکان کے دستخط درکار تھے جبکہ اپوزیشن کی درخواست پر 44 ارکان کے دستخط ہیں۔سیکرٹری سینیٹ محمد انورکا کہنا ہے چونکہ کسی بھی چیئرمین سینٹ کے خلاف پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد آئی ہے۔
سینیٹ سیکرٹریٹ آئین میں درج طریقہ کارکے مطابق قرارداد اور ریکوزیشن کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا۔قائد حزب اختلاف سینیٹ راجہ ظفرالحق نے کہاکہ ہماری ناراضگی تو چیئرمین سینیٹ سے نہیں حکومت سے ہے، اے پی سی کے فیصلہ کے تحت چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرارداد پیش کی ہے۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہاکہ قراداد میں چیئرمین سینٹ پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف اکثریت کا اعتماد کھو دینے کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی ہے، اب سینیٹ سیکرٹریٹ 14روزمیں اجلاس بلائیگا، چیئرمین سینیٹ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار کا فیصلہ 11 جولائی کو رہبرکمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا۔اپوزیشن کی تحریک پر نوٹس جاری ہونے کے سات دن بعد پہلے ورکنگ ڈے کوقرارداد سینیٹ اجلاس میں واحد ایجنڈا آئٹم کے طور پر شامل کیا جائے گا جبکہ اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ نہیں کرے گا۔
چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے قرارداد پر رائے شماری خفیہ ہو گی۔ موجودہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس 67 اور حکومتی بنچز کے پاس 36 سینیٹرز موجود ہیں۔صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے شیڈول جاری ہو گا اور یہ انتخاب بھی خفیہ رائے شماری سے ہو گا۔
ایوان بالا میں اس قرارداد کی منظوری کے لیے 53 ووٹ درکار ہوں گے جس سے سینیٹ میں اپوزیشن کی مجموعی ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔اس وقت سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 66 ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد صرف 38 ہے۔ موجودہ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق اس وقت 104 کے ایوان میں 103 ارکان ہیں۔
حلف نہ اٹھانے والے اسحاق ڈار کے بغیر مسلم لیگ ن کے پاس 30 سینیٹرز ہیں۔ ان میں سے 17 مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جبکہ باقی 13 آزاد حیثیت سے جیتے ہوئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 21، نیشنل پارٹی کے پانچ، جمعیت علمائے اسلام ف اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چار، چار، جماعت اسلامی کے2جبکہ اے این پی کا ایک سینیٹرز ہے۔
یوں سینیٹ میں اپوزیشن کے 67 سینیٹرز ہیں۔حکمراں اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف کے 14، سینیٹر صادق سنجرانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے 8، ایم کیو ایم کے پانچ، فاٹا کے سات، مسلم لیگ فنکشنل اور بی این پی مینگل کا ایک ایک سینیٹر ہے۔ بہرحال چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو جب ایوان بالا کا چیئرمین منتخب کرنا تھا تو اس دوران سب سے کلیدی کردار پیپلزپارٹی کا تھاجس میں آصف علی زرداری سب سے زیادہ متحرک تھے اس دوران ہر طرف سے یہی صدا بلند ہورہی تھی کہ بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے اس لئے اس اہم منصب کیلئے اسی صوبہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کو لانا چاہئے تاکہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکے۔
ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہے کہ یہ اس وقت کی سیاسی پاور گیم کا حصہ تھا جب صادق سنجرانی کو چیئرمین بنانا تھاچونکہ ان دنوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان شدید اختلافات تھے اس لئے بلوچستان کارڈ کھیلا گیا جس کا ذکر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے خود کیا کہ بلوچستان کارڈ باربار اس طرح نہ کھیلاجائے مگرسیاسی حالات اور تقاضوں کے مطابق بڑی سیاسی جماعتیں اپنے کارڈزکھیلتے ہیں اور اب وقت آگیا ہے اس لئے اسے کھیلاجارہا ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن دور حکومت میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی، وزیراعلیٰ بلوچستان کی فراغت کے ساتھ ہی بلوچستان سے مسلم لیگ ن کا صفایا ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران بھی آصف علی زرداری ہی زیادہ متحرک تھے۔ اس تمام سیاسی صورتحال کے بعد اپوزیشن کی جانب سے یہ کہنا کہ صادق سنجرانی اعتماد کھوبیٹھے ہیں اس لئے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جارہی ہے بے معنی اور حقائق کے برعکس ہے بلکہ اپوزیشن اس لئے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے جارہی ہے کہ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی اتحادی ہیں اور حکومت کے خلاف پہلا مؤثر سیاسی حملہ ایوان بالا میں کیاجارہا ہے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور تبدیلی کابلوچستان کی محرومیوں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس سے بلوچستان کے حالات پر کوئی اثر پڑے گا۔
کیونکہ جنہوں نے قائد ایوان کے چیئرمین کیلئے صادق سنجرانی کو لایا اب وہی انہیں ہٹانے جارہے ہیں جس میں ان کے اپنے سیاسی مقاصد شامل ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مدِ مقابل تھیں اب دونوں حکومت کے خلاف اتحادی بن چکے ہیں، ان کے مفادات بھی مشترک ہیں اور وہ حکومت کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینگے۔ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور یہ سیاسی کشیدگی جاری رہے گی جو ہمارے سیاسی تاریخ اور کلچر کی ترجمانی کرتا ہے کہ ماضی کے سیاسی روایات تو نہیں بدلے البتہ اتحادی بدل گئے ہیں۔