گزشتہ چند دنوں کے دوران بڑی خبریں سامنے آنے کے بعد ملکی سیاسی صورتحال میں گرماگرمی پیدا ہوگئی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پہلے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کافیصلہ مشترکہ طور پر کیا گیااور اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے گزشتہ روز سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرادی گئی۔
پہلے یہ گمان کیاجارہا تھا کہ شاید اپوزیشن کے پاس فی الوقت یہی ایک مؤثر ہتھیار ہے جو اپنا سیاسی پاور شو کرنے کیلئے حکومت سے ٹھکرائے گی مگر یکدم سے جج ارشدملک کی مبینہ ویڈیو مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اپنے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی اس ویڈیو کو منظر عام پر لانے میں زیادہ تر مریم نواز کا نام لیاجارہا ہے مگر ن لیگ کی پوری قیادت اس پریس کانفرنس میں موجود تھی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس مبینہ ویڈیو کو جاری کررہی ہے، صرف مریم نواز انفرادی طور پر اس معاملے کو نہیں اٹھارہیں۔
اس مبینہ ویڈیو کے بعد مزید انکشافات سامنے آنے لگے ہیں کہ ایسے مزید چار سے پانچ ویڈیوزموجود ہیں جن میں اہم شخصیات بھی شامل ہیں ظاہر ہے یہ اتنا سیدھا معاملہ نہیں کہ صرف بیان جاری کرکے الزام لگایا گیا ہے بلکہ ویڈیو کو پوری میڈیا کے سامنے دکھایا گیا۔ اسی پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز نے کہاکہ اس سے بھی بڑے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اس لئے مجبور نہ کیاجائے کہ انہیں منظر عام پر لائیں کیونکہ اس میں بڑے بڑے نام سامنے آئینگے۔
اس سے قبل یہ باتیں سامنے آرہی تھیں کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے چند قائدین نے پارٹی کے دیگرر ہنماؤں کو فی الوقت محاذ آرائی سے گریز کرنے کی تاکیدکی ہے تاکہ اس تمام صورتحال کو کسی درمیانے راستے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب رانا ثناء اللہ کی گرفتاری عمل میں آئی تو مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ شاید اب مزید خاموشی ان کیلئے مزید مسائل کا سبب بنے گی اس لئے مسلم لیگ ن نے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو دکھانے سمیت مزید ویڈیوز کے انکشافات بھی کئے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے سیاسی دنگل سجانے کافیصلہ کرلیا ہے اور وہ تمام معلومات جو ان کے پاس ہیں ان کو میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے گی تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔بہرحال جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی فرانزک ٹیسٹ کے بعد ہی معاملہ کلیئر ہوجائے گا کہ یہ ویڈیو حقیقت پر مبنی ہے یا پھر جعلی ہے، بہرحال یہ نہ صرف حکومت بلکہ اداروں کے ساتھ بھی ٹھکراؤ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی قیادت چاہتی تو اس ویڈیو کو قانونی طریقے سے استعمال کرتے ہوئے عدالت میں جاتی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس مبینہ ویڈیو کے حوالے سے مزید تحقیقات کو آگے کیسے بڑھائے گی تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کراچی میں صنعت کاروں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت گرانے کے لیے افراتفری مچانے والے میرے منہ سے ”این آر او“ کے تین الفاط سننے کے لیے بے چین ہیں،میں یہ 3 الفاظ کہہ دوں تو سب ٹھیک ہو جائے گا،نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف کیس بنانے والے جمہوریت اوراپنا پیسہ بچانے کے نام پراکھٹے ہوگئے ہیں، یہ لوگ حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں۔
کرپٹ لوگوں کو کبھی این آر او نہیں دوں گا، این آر او دینا قوم سے غداری ہے،نواز،زرداری کواین آراودیا تو قوم مجھے معاف نہیں کرے گی،کرپشن کی وجہ سے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر لینے پڑے۔وزیراعظم نے کہاکہ سندھ میں گورنرراج لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لارہی اور مقابلہ کیلئے تیار ہے۔
بہرحال سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والی یہ صورتحال آگے مزید ہلچل پیدا کرے گی جو صورتحال پچھلی دور حکومت کے دوران تھی اب ایک بار پھر وہی ماحول بنتا جارہا ہے جوکہ ملکی معیشت اور موجودہ حالات کے مطابق کسی صورت بہتر نہیں۔ لہذا تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد میں سوچنا چاہئے صرف ایک جماعت یا ذات کیلئے نہیں۔