|

وقتِ اشاعت :   July 13 – 2019

لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس رحیم یار خان کے قریب ولہار اسٹیشن کی حدود میں کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں موقع پر گیارہ افراد جاں بحق اور 80سے زائد زخمی ہوگئے، حادثے میں مسافر ٹرین کا انجن مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور 3 سے 4 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں،6 سے 7 بوگیاں شدید متاثر ہوئیں۔ حادثہ صبح 4 بجے کے قریب پیش آیا، ٹرین میں سوار بیشتر مسافر سو رہے تھے۔

گاڑی کو حادثہ کانٹا تبدیل نہ کرنے کی صورت میں پیش آیا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ ہمیں اپنی مدد آپ ہی بوگیوں سے نکلنا پڑا۔دوسری جانب شیخ رشید نے ٹرین حادثے پر اظہار افسوس کیا اور جاں بحق افراد کے لواحقین کو 15 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔شیخ رشید نے کہا کہ حادثے کے شدید زخمیوں کو 5 لاکھ اور معمولی زخمیوں کو 2 لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ اکبر ایکسپریس غفلت کے باعث حادثے کا شکار ہوئی، حادثہ انسانی غفلت کا نتیجہ ہے، اس میں کانٹے والا ملوث ہے جب کہ ٹریک کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے تاہم حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ریلوے میں بہت کرپشن ہے جسے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹر بیان میں ٹرین حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔وزیراعظم نے ریلوے حکام کو حکم دیا کہ کئی دہائیوں سے پرانے ریلوے انفرا اسٹرکچر کوجدید بنایا جائے اور حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس سے قبل بھی ٹرین کے خوفناک حادثات کے دوران درجنوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور یہ حادثات صرف انسانی غفلت کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ ان حادثات سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ محکمہ ریلوے میں کام کرنے والے ملازمین اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام نہیں دیتے اور یہ معاملہ صرف ایک معمولی ملازم کا نہیں ہوسکتا اگر محکمہ ریلوے کے آفیسران ایمانداری سے اپنا کام کریں تو اس کا سدباب ہوسکتا ہے۔

گزشتہ روز خود وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے اعتراف کیا کہ آفیسران کے تبادلوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہیں اسی محکمہ میں رہ کر کام کرنا ہے مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ آفیسران محکمہ کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتے اور اس طرح کے سانحات رونما ہوجاتے ہیں۔

2016ء کے دوران کراچی کے لانڈھی ریلوے اسٹیشن پر ایک خوفناک حادثہ پیش آیاتھا۔ فرید ایکسپریس ٹرین لانڈھی اسٹیشن پر کھڑی تھی کہ پیچھے سے آنے والی ذکریا ایکسپریس ٹرین اس سے ٹکرا گئی جس میں 22افراد جاں بحق جبکہ 50سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ اس خوفناک حادثہ میں پانچ مسافر بوگیاں تباہ ہوگئی تھیں اوریہ واقعہ بھی انسانی غفلت کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ ڈرائیور نے سگنل کو نظر انداز کیا اور سگنل کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔

زیادہ ریل کے حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ریلوے نے کبھی ایسی آگاہی مہم نہیں چلائی جس کا مقصد ڈرائیوروں اور ریلوے کے دوسرے اہم ترین شعبوں کے ملازمین کو اس بات سے آگاہ کیاجائے کہ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں ان کے ہاتھوں میں ہیں اور ریل چلاتے وقت اپنی ذمہ داریوں کا زیادہ احساس کریں۔

ایک غلطی سے درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں، اس کے ساتھ ہی ریلوے کو نئے انجن لگانے چاہئیں تاکہ انسانی جانیں محفوظ رہیں۔ محکمہ ریلوے میں موجود آفیسران کی کوتاہیوں کا نوٹس لینا ضروری ہے کیونکہ ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں جب تک ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی مسائل کا سدباب نہیں ہوسکتا۔