جج ارشد ملک کے بیان حلفی اور ان کو ہٹانے کے بعد نواز شریف کو ہونے والی سزا کا معاملہ نیا رخ اختیار کرتا جارہا ہے جہاں اس پر مسلم لیگ ن سیاست کررہی ہے وہیں ارشد ملک کے سنائے گئے فیصلے اور مبینہ ویڈیو پر بھی بحث جاری ہے۔ مگر یہ معاملہ سیاست سے آگے قانونی تقاضوں کاہے جسے انتہائی باریک بینی سے دیکھاجاناچائیے کیونکہ کسی بھی معاشرے میں عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے جسے سیاست سے بالائے طاق رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک طویل جدوجہد کے بعد آزاد عدلیہ معرض وجود میں آیا ہے اور اس کے وقار کو بلند رکھنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہرحال گزشتہ روز جج ارشد ملک نے بیان حلفی دیاہے جس کے مطابق ناصرجنجوعہ نے ان کی مرضی کے بغیر ان کی آڈیو ریکارڈ کرکے نوازشریف کو سنائی۔ ناصربٹ نے کہا کہ نوازشریف اس آڈیو سے مطمئن نہیں آپ کو نوازشریف سے ملنا ہوگا، 6 اپریل 2019 کو جاتی عمرہ میں نوازشریف سے ملاقات ہوئی، ناصربٹ نے نوازشریف کی موجودگی میں کہا فیصلہ دباؤ میں دیا۔
ارشد ملک کے مطابق انہوں نے نوازشریف کے منہ پر کہا میں نے میرٹ پر فیصلہ دیا، نوازشریف نے ان کی بات پر ناگواری کا اظہار کیا، ان کے بیان کے بعد نوازشریف سے ملاقات ختم ہوگئی، ناصربٹ نے کہا فیصلہ سنا توچکے اب نوازشریف کیلئے کچھ کرنا ہوگا، ناصربٹ نے بلیک میل کرکے آڈیو ریکارڈ کرنے کی کوشش کی، ناصربٹ نے کہا نوازشریف کے سامنے میری مرضی کا بیان نہیں دیا اب ایک اور کام کرو، نوازشریف کی اپیل کا جائزہ لو اور اپنی تجاویز دو۔
بیان حلفی میں جج نے بتایا کہ ناصربٹ اپیل کا مسودہ لیکر ان کے گھر آیا، نہ چاہتے ہوئے نوازشریف کی اپیل کا مسودہ پڑھا، مریم نواز کی پریس کانفرنس سے معلوم ہوا اپیل پڑھتے وقت ویڈیو ریکارڈ کی گئی۔اس بیان حلفی کا جائزہ لیاجائے تو جج ارشد ملک نے اس پورے عمل سے اعلیٰ عدلیہ کو کبھی آگاہ نہیں کیا اگر وہ اس تمام صورتحال کواعلیٰ عدلیہ کو بتادیتے تو بقول ارشد ملک کے جو مبینہ ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے مسلم لیگ ن اسے میڈیا کے سامنے نہیں لاتی بلکہ قانون کے مطابق مسلم لیگ ن پر دباؤ برقرار رہتا مگر اب صورتحال کچھ الگ ہے۔
دوسری جانب وزارت قانون کے حکم کے مطابق احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو کام سے روکے جانے کے حکم پر پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ معاملہ کسی جج کو فارغ کرنے کا نہیں، اس کے فیصلے کو فارغ کرنے کا ہے۔ سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق دائر درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس درخواست کی سماعت 16 جولائی کو کرے گا۔ اس مبینہ ویڈیو کے خلاف درخواست ایک مقامی وکیل کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جج ارشد ملک کو ہٹائے جانے کی سفارش کرنے کے خط کے سامنے آنے اور حکومتی نمائندوں کی پریس کانفرنس پر رد عمل دیتے ہوئے مریم نواز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے متعدد پیغامات میں کہا کہ جج ارشد ملک کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور نواز شریف کو انصاف فراہم کرتے ہوئے کسی تاخیر کے بغیر رہا کیا جائے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدراور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کے فیصلے پر اپنے بیان میں کہا کہ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے بعد نواز شریف کے خلاف فیصلہ کالعدم ہو چکا ہے اور جج کے منصب سے ہٹنے کے بعد نوازشریف کو فی الفور رہا کیا جائے۔
نوازشریف کو جیل میں ایک منٹ بھی رکھنا اب غیر قانونی ہے، ویڈیو اور اس سے جڑے تمام حقائق سچ ثابت ہوگئے ہیں۔ جج ہٹانے کے بعد نواز شریف کو جیل میں رکھنے کا جواز بھی ختم ہو گیا ہے۔وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کوفوری طور پر مزید کام سے روک دیا گیا ہے اور انھیں محکمہ قانون کو رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔بیان حلفی کے بارے میں وزیر قانون نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مطابق جج ارشد ملک پر ہر قسم کا دباؤ تھا لیکن پاکستان اور نیب کے قانون کے تحت کوئی بھی شخص کسی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اس کی سزا الگ ہے۔
اس تمام صورتحال پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بے شک جج کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا دیا گیا فیصلہ برقرار ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے کو برقرار بھی رکھ سکتی ہے اور ختم بھی کرسکتی ہے۔ اگر جج کا تعصب ظاہر ہوجائے تو فیصلہ دوبارہ لکھا جاتا ہے، نوازشریف کے ویڈیوز کو ریکارڈ کا حصہ بنوانا چاہیے جیسے بیان حلفی کو بنایا گیا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس میں جس کا بھی جو کردار ہے اسے سزا دینی چاہیے کیونکہ عدلیہ کو ثابت کرنا ہے کہ وہ آزاد ہے۔ اگر اس معاملے کو نہ دیکھا گیا تو لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گا۔یقینا اس تمام صورتحال کے بعد اب سب کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیگی اور جو بھی اس پورے عمل میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اسے سخت سزادی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکے۔