ریکوڈک کیس میں پاکستان کو جرمانے کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے کمیشن بنانے کی ہدایت کردی۔ کمیشن تحقیقات کرے گا یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور پاکستان کو جرمانہ کیوں ہوا، کمیشن ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا تعین بھی کرے گا۔
حکومت پاکستان نے ریکوڈک کیس پر مایوسی کا اظہار کیا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق عالمی عدالت نے کئی سو صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعہ کے روز سنایا۔ اٹارنی جنرل آفس اور حکومت بلوچستان فیصلے کے قانونی اورمالی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔حکومت پاکستان مشاورت سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی قوانین کے تحت تمام قانونی آپشنز استعمال کرنے کاحق رکھتی ہے تاہم حکومت پاکستان ٹی ٹی سی کمپنی کی جانب سے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کے بیان کوخوش آئند قراردیتی ہے اور تمام بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق پاکستان ریکوڈک ذخائر کی ڈویلپمنٹ میں دلچسپی رکھتا ہے اور پاکستان بطور ذمہ دار ریاست بین الاقوامی معاہدوں کوسنجیدگی سے دیکھتا ہے، بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے قانونی حقوق اورمفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔واضح رہے انٹرنیشنل سینٹر فارسیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرنے کی پاداش میں پاکستان پر 4 ارب 10 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا ہے جس پر ایک ارب 87 کروڑ ڈالر سود بھی ادا کرنا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کمیشن کا قیام اور نقصان پہنچانے والوں کا تعین کرنے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے، اس سے قبل 2017ء کے دوران ٹریبونل نے ریکوڈک کے مسئلے پر کمپنی کے حق میں اور حکومت پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا تھا مگر اس وقت کے حکمرانوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں،بجائے ریکوڈک منصوبہ کے متعلق ہونے والے کیس اور جرمانہ کی وجوہات تلاش کرتے مگر ن لیگ کی حکومت نے ساراملبہ بلوچستان حکومت پر ڈال دیا کہ صوبائی حکومت جرمانہ ادا کرے۔
جب مسلم لیگ ن کی حکومت بلوچستان میں ختم ہوئی تو اس دوران نئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ریکوڈک کیس کی لندن میں جاری سماعت کیلئے متعلقہ بیوروکریٹس اور قانونی ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دینے کی ہدایات جاری کیں مگر اس کے بعد کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ البتہ یہ تاثر پہلے سے عام تھا کہ ریکوڈک کیس میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔
ہم انہی کالموں کے ذریعے اس وقت کے حکمرانوں کو ریکوڈک کیس کے متعلق آگاہ کرتے رہے کہ کس بے دردی کے ساتھ اس منصوبہ کو لوٹا جارہا ہے مگراس وقت کے وفاقی حکومت نے اس کیس سے چشم پوشی اختیار کررکھی تھی۔ حکمرانی کا سہرا جب عوام سر پر سجاتا ہے تو پھر حکمرانوں کا مقصد ملک کی خدمت کرنا ہوتا ہے، عوام کے جان ومال کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنانا ہوتاہے اور اپنے ایماندارانہ طرز حکمرانی کے ساتھ حکومتی معاملات کو چلانا ہوتا ہے۔
مگر بدقسمتی سے ملک کے حکمرانوں نے کرسی کو اپنے مفادات اور تجارت کا ذریعہ بنایا۔ ریکوڈک کیس کے معاملے پر ماضی کی حکومت میں بعض سرکاری آفیسران ایسا نقشہ پیش کررہے تھے کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے بھی یا نہیں۔ کاپر اور سونے کے کان ریکوڈک کو ابتداء سے ہی رشوت کمانے کا ذریعہ بنایا گیا،کسی نے بھی ان معاہدوں کو پڑھا ہی نہیں جو کمپنی کے ساتھ کیے گئے۔
پہلا معاہدہ آسٹریلوی کمپنی کے ساتھ کیا گیا، کمپنی سے تنازعہ ہوا اور حکومت نے اس کو کان کنی کی اجازت دینے سے انکار کردیا، کمپنی نے جو بھی معاہدہ اپنی مرضی سے تحریر کیا، افسر شاہی کے احکامات کے تحت سیاسی حکمرانوں نے اس کو تسلیم کیا، نہ اس معاہدے کو پڑھنے کی زحمت کی اور نہ ہی بلوچستان کی قومی دولت کو لٹنے سے بچانے کے لیے کوئی کردار ادا کیا۔
لہذاوزیراعظم پاکستان عمران خان آزاد کمیشن کے تحت اس وقت کے تمام آفیسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرے تو سب کچھ واضح ہوجائے گا کہ کس طرح سے اس اہم منصوبہ میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی، اس میں بڑے بڑے نام سامنے آئینگے، ملوث آفیسران اور اس وقت کے سیاسی حکمران جو کرپشن میں ملوث تھے ان سے پیسے واپس لینے کے ساتھ سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی منافع بخش منصوبوں میں لوٹ مار نہ کرے۔
اس فیصلے کے بعدکوئی اچھا تاثر دنیا میں نہیں جائے گا کیونکہ ایک طرف حکومت سرمایہ کاری کیلئے دنیا سے اپیلیں کررہی ہے دوسری جانب اس طرح کی خبریں امیج کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ہمیں دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کرپشن کرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی بلکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ منصوبوں کو احسن طریقے سے چلایاجائے گا جس سے دونوں فریقین کو فائدہ پہنچے گا۔ امید ہے کہ اس بار تحقیقات میں سست روی کا مظاہرہ نہیں کیاجائے گا بلکہ کرپشن کرنے والوں کا تعین کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائینگے۔