|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2019

حکومت بلوچستان نے صوبہ میں محکمہ تعلیم میں اصلاحات اور بہتری کیلئے تعلیمی ایکٹ 2018 متعارف کرانے کافیصلہ کیا تھا جس میں سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کے ہڑتال، احتجاج، بائیکاٹ کرنے والوں کو ایک سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جبکہ اساتذہ کو اکسانے اور مالی معاونت فراہم کرنے والوں کو 6ماہ قید 3لاکھ روپے جرمانہ ہوگا یا دونوں سزائیں بیک وقت بھی لاگو ہوسکتی ہیں۔

اساتذہ کے احتجاج کے دوران پولیس کو کسی وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی اساتذہ کے استعفے قبول ہونگے۔ تعلیمی ایکٹ 2018 کابنیادی مقصد بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات میں بہتری لاناشامل ہے تاکہ تعلیمی ماحول میں خلل اور رکاوٹیں پیدا نہ ہوں۔ تعلیمی ایکٹ کی منظوری البتہ کابینہ کے اجلاس میں پہلے ہی دیدی گئی تھی جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اسے بحث کیلئے پیش کیاجائے گا۔

مہذب معاشرے کی تشکیل میں اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے انہی کی زیرسرپرستی اور تربیت سے نوجوان تہذیب، اخلاق، سماجی اقدارسیکھتے ہوئے معاشرے میں بہترین رجحان کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں مگر بدقسمتی سے اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کی طرف معاشرہ جارہا ہے اور اس کے نتائج آج سامنے ہیں، اساتذہ کے حقوق کا تحفظ کر نا ریاست کی ذمہ داری ہے اور انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین مراعات دینا بھی ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے آنے والے چیلنجز سے نبردآزما کرسکیں۔

بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے جس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ یہاں دیگر صوبوں جیسی تعلیمی سہولیات میسر نہیں،بلوچستان کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے جس سے مجبور ہوکر لوگ پرائیویٹ اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ پرائیویٹ اسکولوں میں آئے روز اساتذہ کی ہڑتالیں نہیں ہوتیں، معمولی مطالبات کیلئے اسکولوں کی تالہ بندی نہیں کی جاتی اور نہ ہی سڑکوں پر آکر عوام کاجینا دوبھر کیا جاتا ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے آئے روز کی ہڑتالیں بھی تعلیمی معیار گرانے کا سبب بن رہی ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور بعض سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے، اس طرح یہ اساتذہ بچوں کے مستقبل کے ساتھ نہ صرف کھیل رہے ہیں بلکہ عوام کے پیسوں پر بہت بڑا مالی بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔

بلوچستان میں انسانی وسائل پر توجہ دی جائے تاکہ یہاں بہتری آسکے مگر بدقسمتی سے یہاں ایک ایسا مافیا موجود ہے جو تعلیمی ماحول کو خراب کررہاہے جس میں ایک عنصر اساتذہ کا بھی ہے جو اپنی تنظیموں کے ذریعے حکومتوں کو بلیک میل کرتے آرہے ہیں۔

گزشتہ تین روز سے کوئٹہ کے ہاکی چوک کے سامنے ایجوکیشنل ایمپلائز کمیٹی نے اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دے رکھا ہے اور اس پوری صورتحال میں عوام متاثر ہورہی ہے جس طرز کا احتجاج اساتذہ نے اپنایا ہے یہ انتہائی نامناسب ہے جو ہمارے سماجی اقدار کو شدید متاثر کررہا ہے جب تعلیم یافتہ طبقہ اس طرح کا رویہ اپنائے گا تو عام لوگوں سے شعوری احتجاج کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔

احتجاج کے پُرامن اور مہذبانہ طریقے بھی موجود ہیں جس سے اپنی آواز حکام بالا تک پہنچائی جاسکتی ہے مگر عوام کو اذیت میں مبتلا کرکے اساتذہ یہ باور کرارہے ہیں کہ اسی طرح کے رویوں سے ہی اپنے مطالبات منظور کرائے جاسکتے ہیں شاید اسی لئے حکومت نے تعلیمی ایکٹ 2018ء کو لانے کافیصلہ کیا ہے تاکہ احتجاج کا جواب اسی طرح ہی دیا جاسکے مگر یہ مسائل کا حل نہیں بلکہ فریقین بیٹھ کر اس معاملے کو گفت وشنید سے حل کریں تاکہ عوام اس احتجاج کے باعث متاثر نہ ہو،لہٰذا اساتذہ اپنے طرز احتجاج پر نظر ثانی کریں۔