کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں کوئلے کی کان میں پھنس جانے والے دس کان کنوں میں سے صرف ایک بچ سکا۔مزدور تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر بروقت موثرکارروائی کی جاتی تو شاید زیادہ کان کن بچ سکتے تھے۔یہ کان کن اس علاقے میں پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) کی کوئلہ کان میں گزشتہ اتوار کو 11بجے پھنس گئے تھے۔ کان کن چار ہزار فٹ گہرائی میں کام کررہے تھے۔
کان میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگ گئی جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر گیس پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے لیے نکلنا مشکل ہوگیا۔ ان کو نکالنے کیلئے ابتدائی طور پر8افراد پر مشتمل ریسکیو ٹیم بھیجی گئی تھی لیکن کان میں گیس زیادہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو ٹیم کے تمام لوگ بے ہوش ہوگئے۔ خوش قسمتی سے ریسکیو ٹیم کے تمام ارکان کونکال لیا گیا۔رواں سال اس قسم کے حادثات میں 25 سے زائد کان کن جاں بحق ہوئے جبکہ گزشتہ سال ان کی تعداد 93 تھی،پیر کی شب کان کنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو کا جو عمل شروع کیا وہ منگل کو ڈھائی بجے مکمل ہوگیا۔
کان میں پھنسے دس کان کنوں میں سے آٹھ جاں بحق ہوئے جبکہ 2 کو زندہ نکالا جاسکا۔زندہ نکالے جانے والے کان کنوں میں سے ایک دوران علاج زندگی کی بازی ہارگیا۔بلوچستان میں پانچ ہزار سے زائد کانیں ہیں جن میں حفاظتی تدابیر کا فقدان ہے۔ ہر مائن فیلڈ میں چیف مائنز انسپکٹر مقرر کیا گیا ہے لیکن مائنز انسپکٹر وہاں جانے کی زحمت نہیں کرتے،یہ ہفتے میں ایک بار کول مائنز کا دورہ کرتے ہیں تاہم مائن کے اندر جاکر جائزہ نہیں لیتے، ان کے رویوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں قیمتی انسانی جانوں سے کوئی سروکار نہیں، یہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے کہ حکمرانوں نے اسطرح کے مسائل پر توجہ دینا ہی چھوڑ دیا ہے۔
یقیناًیہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور غریب عوام کا روزگار اس سے وابستہ ہے اس لئے معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسطرح کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور کان میں المناک واقعہ رونما ہونے کے بعد ذمہ داران کے تعین میں نہ صرف مدد کریں بلکہ اصلاح کیلئے بھی کردارادا کریں۔
ڈیگار ی کے کان میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل کوئٹہ کے مضافات میں واقع کانوں میں ایسے المناک واقعہ رونما ہوچکے ہیں جس میں بڑی تعداد میں کان کن اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں مگر آج تک ان سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس سامنے نہیں آئیں، نہ ہی کسی افسر اور حکمران نے ہمت کرکے عوام کو بتایا کہ کس طرح یہ واقعہ رونما ہوا،بس یہ کہہ دیا گیا کہ مائنز انسپکٹر نے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ کان میں مضرگیس کی مقدار زیادہ ہے اور یہ المناک حادثہ کا سبب بن سکتی ہے۔
ایسے واقعات کے بعد کیوں کوئلے کے کان کو سیل نہیں کیا جاتا،ہم اکیسویں صدی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور آگے بڑھنے کیلئے حکمران سمیت ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ایک بہتر مستقبل اور معاشرے کی تشکیل مکمل ہوسکے۔ حکومت وقت اور متعلقہ ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات کرکے نہ صرف غفلت برتنے پر اعلیٰ افسران کو بھی برطرف کرے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حالیہ واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ تین دن میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ کان کنوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کیلئے موجودہ حکومت مؤثر قانون سازی کرے تاکہ قیمتی جانوں کاتحفظ یقینی ہوسکے، کان کن انتہائی قلیل تنخواہ پر مزدوری کرتے ہیں جنہیں دیگر مراعات بھی فراہم نہیں کی جاتیں، اس کا اندازہ زخمی کان کن کی اسپتال میں دوران علاج موت سے لگایا جاسکتا ہے۔
جسے بے یارومددگار چھوڑا گیااگر بہترطبی امداد دی جاتی اورعلاج کیا جاتاتو شاید ایک جان تو بچائی جاسکتی تھی مگر افسوس کہ لاپرواہی برتی گئی اور مزدور جاں بحق ہوگیا۔لہٰذا کان کنوں کے جانوں کی حفاظت اور علاج کے حوالے سے بھی صوبائی حکومت متعلقہ ذمہ داران کو پابند کرے تاکہ آئندہ اس قسم کے دلخراش واقعات پیش نہ آسکیں۔