بلوچستان کے گرین بیلٹ نصیرآباد ڈویژن میں زرعی اور پینے کے پانی کا بحران شدیدترہوگیا ہے۔ پٹ فیڈر کینال اور اس کی ذیلی نہروں کے ٹیل تک پانی کی شدید قلت برقرار ہے۔
گزشتہ ایک ماہ سے زمیندار اور کاشتکار سراپا احتجاج ہیں، بدھ کے روز پٹ فیڈر کینال کے آر ڈی 64 اور 73 ٹیپل شاخ اور جھڈیرشاخ کے سینکڑوں متاثرہ کاشتکاروں سمیت سیاسی، سماجی رہنماؤں کی قیادت میں جھڈیر شاخ سے ڈپٹی کمشنر نصیرآباد دفتر تک قرآن پاک اٹھاکر پیدل احتجاج کیا گیا،متاثرہ زمیندار اور کاشتکاروں نے ڈپٹی کمشنر دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دیا۔
محکمہ آبپاشی نصیرآباد کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی، احتجاجی مظاہرین کے مطابق محکمہ آبپاشی نصیرآباد کی سیاسی بنیادوں پر تعینات آفیسروں نے ووٹ نہ دینے کی سزاکے طورپردانستہ پٹ فیڈر کینال کے آرڈی 64 اور 73 ٹیپل شاخ، جھڈیر شاخ میں پانی کی ترسیل بند کررکھی ہے جس سے ہزاروں ایکڑ پر کاشت لاکھوں روپے کی شالی کی پینری پانی نہ ہونے کے سبب خشک ہو گئی ہے جبکہ کئی علاقوں میں زرعی پانی تو اپنی جگہ لوگ پینے کے پانی کے لئے بھی ترس گئے ہیں، قیمتی جانور مر رہے ہیں اور لوگ مجبوراََ علاقے میں پینے نہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔
محکمہ آبپاشی کے ذمہ داران جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے من پسند علاقوں کو بلا تعطل پانی فراہم کررہے ہیں جس سے پٹ فیڈر کینال اور اس کی ذیلی نہروں کے ٹیل تک پانی کی عدم فراہمی سے پورا علاقہ متاثر ہورہا ہے۔ مظاہرین نے پانی کی کمی کا مسئلہ حل نہ کرنے کے خلاف سخت احتجاج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ سندھ بلوچستان قومی شاہراہ کو غیر معینہ مدت تک بلاک کیا جائے گا۔
زراعت بلوچستان کی معیشت کی شہ رگ ہے۔ تقریباً اسی فیصد یا اس سے زائد آبادی کا انحصار زراعت اور زرعی پیداوار پر ہے۔ بہر حال بلوچستان کی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کا تعلق زراعت کی ترقی پرمنحصر ہے۔ گزشتہ 60 سالوں میں بلوچستان غذائی پیدوار میں خود کفیل نہیں ہوسکا۔ اس کی بنیادی وجہ ماضی کی حکومتوں کی عدم دلچسپی اور ضروری وسائل کا فقدان رہاہے مگر نصیر آباد سے جس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر وہاں پانی کو بند کیا گیا ہے جبکہ منظور نظر علاقوں کو پانی فراہم کیا جارہا ہے اگرواقعتا ایسا ہے تو وزیراعلیٰ بلوچستان فوری طور پر اس کا نوٹس لیں اور معاملہ کی تحقیقات کرائیں تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔
اس سے قبل بھی متعدد بار بلوچستان میں زراعت کے شعبہ کی ترقی پر زور دینے کی بات کی گئی ہے، صوبہ میں سینکڑوں کی تعداد میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنائے جائیں جس سے زیادہ سے زیادہ زمین آباد ہوسکے۔ سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سیلابی پانی بحرہ عرب میں گرتا ہے۔ 60لاکھ ایکڑفٹ سے زیادہ پانی سمندر میں گرتا ہے اگر ہم اس کا ایک حصہ بھی زراعت‘ اور دوسری ضروریات کے لئے استعمال میں لائیں تو بلوچستان میں یہ انقلاب سے کم نہ ہوگا۔
اس سے بلوچستان غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں زراعت کی ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہونگے۔مگر گرین بیلٹ میں اس وقت پانی بحران پیدا کیاجارہا ہے یہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ بلوچستان کے بیشتر لوگوں کا ذرائع معاش زراعت سے وابستہ ہے اور پانی کے بغیر زرعی زمینیں مکمل تباہ ہوجائینگی اور زمیندار نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ جائینگے۔
لہٰذا اس معاملے میں سیاست نہ کی جائے بلکہ اس طرح کا ماحول پیداکرنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو ذاتی بغض وعناد پر غریب زمینداروں کے استحصال پر تلے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت فوری حرکت میں آتے ہوئے گرین بیلٹ میں پانی کے مسئلے کو حل کرے تاکہ زراعت جوہمارے لوگوں کا بڑا ذریعہ معاشی ہے اسے نقصان نہ پہنچے۔