خوش فہمی اور حقائق کے درمیان تمیز رکھنا انتہائی ضروری ہے، ملک کی ستر سالہ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایک حکمران ایسا گزرا ہو جس نے اپنے دور میں ہونے والی غلطیوں اور ناانصافیوں کا اعتراف کیا ہو بلکہ ان کی زبان سے ہمیشہ اپنے دور کی خوشحالی کی مثالیں ہی دی جاتی رہی ہیں یہ بات الگ ہے کہ آج ملک کا دیوالیہ ہوکر رہ گیا ہے اور یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔
بلکہ انہی پالیسیوں کے تسلسل نے ملک کو اس نہج تک پہنچادیا ہے کہ وہ مقروض سے مقروض ہوتاجارہا ہے جبکہ عام لوگوں پر اس کا بوجھ اس قدر بڑھتاجارہا ہے کہ انہیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ بلوچستان کا ذکر جب آتا ہے تو یہاں کی معدنی دولت کا ذکرکرنے کے ساتھ خوشحالی کے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں سات دہائیوں کے دوران ہر حکمران نے بلوچستان کو آسمان پر پہنچادیا اور یہاں کے بدقسمت عوام زمین بوس ہوکر رہ گئے۔
بلوچستان کے معدنی وسائل سے فائدہ کی ایک مثال حال ہی میں ریکوڈک کیس ہے عوام کو کچھ علم نہیں کہ اس بڑے منصوبے پر کس نے ہاتھ صاف کیا مگر جنہوں نے کیا وہ بلوچستان کے عوام کے خیرخواہ نہیں بلکہ یہاں کے وسائل کی لوٹ مار اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ہی ہیں۔
اب وزیراعظم عمران خان نے ریکوڈک کے معاملے پر کمیشن بنانے اور ذمہ داروں کے تعین کا فیصلہ کیا ہے جس کی بلوچستان کے عوام بھرپور حمایت کرتے ہیں کہ جو بھی اس منصوبہ میں ہونے والی کرپشن میں ملوث ہے اور جو کیسز کی سماعت کے دوران سیر سپاٹے کو گئے تھے ان سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی اور ان سے رقم واپس لینے کے ساتھ ساتھ کڑی سزادی جائے گی اور کرپٹ آفیسران کو آئندہ منافع بخش منصوبوں سے دور رکھا جائے گا جومحض بیانات تک محدود نہ ہو بلکہ عملی طور پر اس پر عملدرآمد بھی کیاجائے گا۔
گزشتہ روز شیر ی رحمن کی زیر صدارت سینیٹ کی سی پیک پر خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی خسرو بختیار نے کہاکہ اب تک سی پیک کے تحت 70ہزار پاکستانیوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔اگر ان ملازمتوں کا نصف حصہ بھی بلوچستان کو مل جائے تو صوبہ سے بیروزگاری کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
70ہزار ایک بہت بڑی تعداد ہے عام طور پر یہ بیان ہضم نہیں ہوتی کیونکہ غریب صوبہ کے عوام کو یہ باور ہی نہیں ہوتا کہ سی پیک کے تحت 70ہزار ملازمتیں مل جائینگی اور ان میں ایک بڑا حصہ یہاں کے نوجوانوں کو ملے گا کیونکہ اب تک جتنے بھی میگا منصوبے یہاں شروع کئے گئے ہیں۔
صوبہ سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے ہونہار نوجوانوں کواس قابل ہی نہیں سمجھاگیا کہ وہ ان منصوبوں میں احسن طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں، ہمیشہ امپورٹڈ آفیسران کو یہاں کے منصوبوں پر تعینات کیا گیا۔ ہر دور کے حکمرانوں نے بلوچستان کے منصوبوں کی افتتاح کے موقع پر یہ رٹا باربار لگایا کہ یہاں کے منصوبوں پر پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے۔
کیونکہ ماضی میں یہاں کے لوگوں کو نظرانداز کیا گیا اور صوبہ کو پسماندہ رکھا گیا مگر اب اس روایت کو نہیں چلنے دینگے۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بلوچستان کے ساتھ انصاف کرے گی اور ستر ہزار ملازمتوں کو بندربانٹ کی نذر ہونے نہیں دے گی بلکہ بلوچستان کے نوجوانوں کو اولیت دی جائے گی تاکہ صوبہ میں موجود بیروزگاروں کی فوج میں کمی آئے۔