پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی تناؤ اس وقت شدید تھا جب چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات ہونے جارہے تھے۔ مسلم لیگ ن بلوچستان سے اپنی پوری اکثریت کھوچکی تھی ماسوائے ایک رکن کے دیگر تمام نے مسلم لیگ ن سے سیاسی طور پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان میں اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جس میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی، مجلس وحدت المسلمین شامل تھے۔
یعنی اپوزیشن کی صرف دو جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ کے علاوہ سب نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا اور اس طرح مسلم لیگ ن کا وزیراعلیٰ تو نہ رہا البتہ مسلم لیگ ن کے تمام اراکین نے اپنی جماعت سے مستعفی ہونے کی زحمت نہیں کی۔بہرحال اس تمام صورتحال سے لگ رہا تھا کہ ن اور ق لیگ کے ارکان ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالیں گے اور یہی ہوا مسلم لیگ ن اور ق سے بلوچستان عوامی پارٹی نے جنم لیا جوکہ زیادہ حیران کن بات نہیں کیونکہ بلوچستان میں اقتدار کی رسہ کشی میں منتخب ہونے والی شخصیات آزادامیدوار کی حیثیت سے آتے ہیں اور پھر جب کسی جماعت کا پلڑا بھاری ہوتا دکھائی دیتا ہے تو اسی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔
یہی صورتحال 2008ء میں بھی دیکھنے کو ملی۔اگرچہ جائیکہ نظریاتی سیاست کا بلوچستان میں شاید اب رواج نہیں رہا، بلوچستان کی سیاست میں ایک خاص تبدیلی گزشتہ تین سے چار ادوار میں واضح طور پر دیکھنے کو ملی ہے اور یہ سلسلہ شاید جاری ہی رہے گا۔ موجودہ چیئرمین سینیٹ کے چناؤ کے سیاسی حالات پر ایک نظر دوڑائی جائے تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی 57 ووٹ حاصل کرکے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے جبکہ ان کے مدِ مقابل راجہ ظفر الحق نے 46 ووٹ حاصل کئے تھے۔
ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اس دوران بھی مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق صرف 11 ووٹوں سے پیچھے رہ گئے تھے باوجود اس کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی جیسی بڑی جماعتوں کی حمایت چیئرمین سینیٹ کو حاصل تھی، اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے صادق سنجرانی کو جیت پر مبارک باد دیتے ہوئے اسے وفاق کی جیت قرار دیاتھا اور آج پیپلزپارٹی عدم اعتماد کی تحریک کو کس کی فتح قرار دینے جارہی ہے حالانکہ چیئرمین صادق سنجرانی کے نام پر تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اتفاق کیا تھا اور اس دوران سب سے زیادہ متحرک اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو تھے جوموجودہ وقت میں بلوچستان میں اسپیکر کے عہدے پر فائز ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جب چیئرمین سینیٹ میرصادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کرکے اعلامیہ جاری کیا گیا تو اس دن سے لیکرآج تک میرعبدالقدوس بزنجو متحرک دکھائی نہیں دے رہے حالانکہ چیئرمین سینیٹ کیلئے اہم بیٹھک تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ میرعبدالقدوس نے اپنے اس وقت کے منحرف لیگی ارکان کے ساتھ لگائے تھے مگر آج ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں مل رہی البتہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس حوالے سے کافی متحرک دکھائی دے رہے ہیں ان کی جانب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ روز ایک بار پھروزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پربیان دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن عدم اعتماد لانے جارہی ہے،کوشش ہوگی کہ ہم اپنی نمبر گیم پوری رکھیں،اپوزیشن کے پاس چیئر مین سینیٹ کو ہٹا نے کی کوئی وجہ نہیں ہے پیپلز پارٹی سے پوچھا جائے کہ صادق سنجرانی کو کس نے لایا۔لانے اور لیجانے کا ڈائیلاگ پاکستان میں عام ہو چکا ہے جہانگیر ترین کے جہاز جیسے بہت جہاز استعمال ہو تے ہیں۔
یادش بخیر چیئرمین سینیٹ کو لانے کی وجوہات جو بتائی گئی تھیں کہ بلوچستان کو ملک کے اہم فورم پر بڑی نمائندگی مل رہی ہے جس سے بلوچستان کی احساس محرومیوں کے خاتمے میں مدد ملے گی اب اپوزیشن جماعتوں نے بلوچستان سے ہی چیئرمین سینیٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے یعنی نمائندگی بلوچستان کے پاس ہی رہے گی اور اس کا تعلق محرومیوں سے کم سیاسی پاور گیم سے زیادہ ہے۔