پاکستان کی سیاسی نفسیات شدت پسندی کی تاریخ نہیں رکھتی، ملک کے تمام علاقوں کے اپنے سماجی روایات رہے ہیں قبائلی علاقوں کی اگر بات کی جائے تو وہاں سرد جنگ کے دوران ایسے حالات بنے کہ لوگوں کو شدت پسند بنایاگیا اور اس طرح سے یہ طول پکڑتا گیا،اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہوگئیں کہ ان کے خلاف سخت ترین آپریشن کیا گیا۔
اس بات سے سب متفق ہیں کہ قبائلی علاقوں کے معتبرین اور ان کے قبائل نے ہمیشہ قابضوں کے خلاف جنگیں لڑیں، آزادی سے لیکر کشمیر تک کی جنگ میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے مگر نائن الیون کے بعد جس طرح سے مذہبی جنگ کو پروان چڑھانے کیلئے سرمایہ کاری کی گئی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور دھڑادھڑ مدارس قائم کئے گئے جس میں خاص طور پر جہادیوں کی تربیت کی جاتی رہی اور اس میں اہم کھلاڑی خود امریکہ ہی تھا۔
آج جب امریکہ افغانستان کی جنگ میں پھنس گیا ہے تو اس نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے متعدد بار پاکستان پر نہ صرف الزامات لگائے گئے بلکہ پاکستان کے کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اس کی نسبت بھارت کو لاڈلابنایاگیا اور افغانستان میں اس کو مارکیٹ فراہم کی گئی۔ بہرحال اس رویہ کو بھی امریکہ نے ختم کرنا ہوگا کیونکہ خطے میں ایک ملک کو دیوار سے لگانا اور دوسرے کو سر پر چڑھاناکوئی درست رویہ نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ کے بعد امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات مزید بہتری کی جانب گامزن ہوں گی۔ جس طرح وزیراعظم عمران خان نے دورہ امریکہ سے واپسی پر اسلام آباد ائیرپورٹ پر پی ٹی آئی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ میں کسی باہر ملک کے دورے سے نہیں آ رہا بلکہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک خود دار قوم بننا ہے۔
میں بار بار کہتا ہوں کہ نہ میں کبھی کسی کے سامنے جھکا ہوں نہ میں نے اپنی قوم کو کسی کے سامنے جھکنے دینا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک سال پہلے ان کی پارٹی کو اقتدار ملا۔ ہمیں ملک کو سنبھالنے میں ایک سال لگا۔ اب آپ دیکھیں گے کہ ہم آگے بڑھیں گے لیکن جب تک ملک کو مقروض کرنے والوں کا حساب نہیں ہو گا۔عمران خان نے کہا کہ یہ جو مشکل حالات میں ڈاکوؤں نے پاکستان کو چھوڑ کر گئے تھے ہم نے پاکستان میں اصلاحات کرنی ہیں ایف بی آر کو ٹھیک کرنا ہے۔
ہم اسی ملک سے پیسہ اکھٹا کریں گے،ا سکول بنوائیں گے، ہسپتال بنوائیں گے۔اس سے قبل اپنے دورہ امریکہ کے آخری دن منگل کو واشنگٹن میں امریکی ادارہ برائے امن کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے سوال و جواب کے سیشن میں کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی فوج بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ہمیں کبھی بھی قبائلی علاقوں میں فوج نہیں بھیجنی چاہیے تھی کیونکہ قبائلی علاقہ ہمیشہ خودمختار رہا ہے جس کے اپنے قوانین ہیں حتیٰ کہ برطانیہ نے اپنے دور حکومت میں اس علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
فوج کو سول علاقوں میں نہیں بھیجنا چاہیے کیونکہ آپ جب بھی فوج کو سول علاقوں میں بھیجیں گے تو آپ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، کولیٹرل ڈیمج ہو گا، معصوم انسان مریں گے کیونکہ وہاں کوئی فوج نہیں ہوتی بلکہ صرف دیہات سے گوریلا کارروائیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس کولیٹرل ڈیمج کی وجہ سے پاکستانی طالبان وجود میں آئے کیونکہ اس سے پہلے پاکستانی طالبان نہیں تھے۔
اس وجہ سے قبائلی علاقوں میں لوگ متاثر ہوئے کیونکہ ایک طرف عسکریت پسند تھے تو ایک طرف پاکستان آرمی۔ آدھے سے زیادہ قبائلی بے گھر ہوئے تو بنیادی طور پر ملک دوزخ بن گیا۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی بجائے غیرجانبدار رہنا چاہیے تھا۔اگر پاکستان اس وقت غیرجانبدار رہتا تو ان عسکریت پسند گروہوں کو وقت کے ساتھ ساتھ کنٹرول کیا جا سکتا تھا لیکن چونکہ ہم امریکی جنگ کا حصہ بنے اس لیے وہ ہمارے خلاف ہو گئے۔اول روز سے پاکستان کی افغان جنگ میں امریکہ کی حمایت پر شدید مخالفت سامنے آئی ہے جس کا اظہار وزیراعظم عمران خان بھی کررہے ہیں۔
سب سے بہتر اقدام یہ ہوا کہ قبائلی علاقوں کو کے پی کے میں شامل کرکے اب وہاں انتخابات کرائے گئے ا س سے ان کے منتخب نمائندگان بہتر طریقے سے اپنے علاقوں کے مسائل کو حل کرنے سمیت دہشت گردی کی سرکوبی کیلئے حکومت کا مکمل ساتھ دیں گے۔ اور حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دیتے ہوئے صرف جنگی معاملات پر نہیں بلکہ معیشت کی فروغ کے حوالے سے بھی سرمایہ کاری کو آگے بڑھائے گی تاکہ پاکستان عالمی منڈی تک رسائی حاصل کرسکے۔