چیئرمین سینیٹ کے خلاف جب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کافیصلہ اپوزیشن کی جانب سے کیا گیا ہے اسی روز سے بلوچستان حکومت کے متعلق بھی افواہیں گشت کرنے لگی ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اپوزیشن میں دو بڑی جماعتیں ایم ایم اے اور بی این پی مینگل شامل ہیں اور اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ چل رہی ہے جس کی واضح مثال حال ہی میں اپوزیشن کی جانب سے اے پی سی میں شامل نہ ہونا اور بجٹ پاس کرانے میں پی ٹی آئی کوووٹ دینا ہے۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی این پی مینگل قطعاََ پی ٹی آئی قیادت کو ناراض نہیں کرنا چاہتی گوکہ اس سے قبل یہ بیانات سامنے ضرورآئیں کہ عدم اعتماد کی صورت میں بی این پی مینگل ووٹ دے گی مگر سیاسی حالات اور فیصلوں سے واضح ہے کہ بی این پی مینگل اس عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اے این پی بھی حکومت کے خلاف جانے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اگرچہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء میاں افتخار نے 25جولائی کے جلسے میں جوش خطابت میں یہ اعلان کیا تھا کہ مشران فیصلہ کریں تو دو وزارتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں مگر یہ فیصلہ اے پی سی میں کیونکر نہیں کیا گیا جب اے این پی کی جانب سے سب سے پہلے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی بات کی گئی تھی جس کے بعد اسے حتمی شکل دیا گیا تو اس دوران اے پی سی کے اعلامیہ میں اے این پی کی بلوچستان کابینہ سے علیحدگی کا فیصلہ جاری کیا جاتا تو اس کا اثر ہوتا۔
بہرحال ہمارے یہاں ایسی روایات پروان چڑھ رہی ہیں کہ کسی بھی بیان پر فوری یوٹرن لینا کوئی مضحکہ خیز بات نہیں حالانکہ بلوچستان کابینہ میں شامل اے این پی کے ایک رکن نے خود میڈیا کے سامنے یہ بات کی تھی کہ اپوزیشن کا جلسہ ان کی حکومت کے خلاف ہے جبکہ صوبائی صدر اے این پی نے اس کی تردید کی ہے تو سیاسی بیانات بہت اثر رکھتے ہیں مگر فوری اس کی تردید تمام عمل کو بے اثر کردیتی ہے۔ اسی طرح اے این پی کے مرکزی رہنماء میاں افتخار کے اعلان کو بے اثر ہی سمجھاجارہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی کشیدگی برقرار ہے مگراپوزیشن صرف اتنی سکت رکھتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاج، جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کرسکتی ہے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے ان کے پاس اکثریت نہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس ایک نشست جبکہ پیپلزپارٹی کا کوئی رکن اسمبلی میں نہیں جبکہ ایم ایم اے کی نشستیں اتنی نہیں کہ وہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاسکے جبکہ بی این پی مینگل اس پورے عمل میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے۔
تو لہٰذا اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیاجائے گاالبتہ حکومتی اراکین میں چند ایک معاملات پر اختلافات ہوسکتے ہیں مگر اندرون خانہ جماعت مضبوط ہے جس کی ایک مثال منظور کاکڑ کا رکن سینیٹ منتخب ہونا تھا جس میں تمام اتحادیوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل منظور کاکڑ کو ووٹ کاسٹ کیا صرف ایک اتحادی جماعت کے رکن نے ووٹ نہیں دیا تھا جس کی اپنی جماعت کے ساتھ اختلافات تھے تو اسے حکومت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ بیشتر ارکان آزاد امیدوار کی حیثیت سے مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے پارٹی منشور اور قیادت سے ان کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں تھی اور ان کے اپنے گلے شکوے تھے اس لئے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی مگر موجودہ سیاسی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اب تک بلوچستان عوامی پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط پوزیشن پر کھڑی ہے۔