|

وقتِ اشاعت :   July 30 – 2019

ملک میں اقتدار کی رسہ کشی نے سیاست پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں، اقتدار میں کوئی بھی جماعت آجائے اس کی سب سے اہم ذمہ داری ملکی معیشت کو بہترکرنا، عوام کوروزگارکی فراہمی کو یقینی بنانا، عوام کے بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا، عوام کوتمام تر بنیادی سہولیات ان کی دہلیز تک پہنچانا شامل ہے جبکہ ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دیناجو ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتیں اقتدار یااپوزیشن میں ہوں ان کیلئے ریاست ماں جیسی ہی ہے۔

بدقسمتی سے آج سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے خارجی محاذ پر کامیابی اور ناکامی پر بھی طنزیہ رویہ اختیار کررہے ہیں جو دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہے۔

اگر وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ کامیاب ہو اہے تو یہ ریاست پاکستان کی کامیابی ہے جس سے کروڑوں عوام کی امیدیں وابستہ ہیں کہ دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں تاکہ ملک استحکام کی طرف بڑھے، صرف امن وامان ہی ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ اس وقت ملک کو سب سے بڑا چیلنج معاشی حوالے سے درپیش ہے،سب دعا گوں ہیں کہ ملک معاشی حوالے سے مستحکم ہوجائے اور پاکستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کیلئے دنیا آئے بلکہ پاکستانی مصنوعات کو بھی عالمی منڈی تک رسائی مل سکے جس سے معاشی بحران کا خاتمہ یقینی ہوگا۔ گزشتہ روز وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے،خارجہ پالیسی اورمحکمہ خارجہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے امریکہ کے دورے نے بہت سے لوگوں کے حوصلے پست کردئیے اور بہت سے ناقدین کی تنقید بھی بند کردی،ماضی کی طرح امریکہ نے کسی قسم کا ڈومور کا مطالبہ نہیں کیا، امریکہ سمیت عالمی برادری افغان مسئلے کے سیاسی حل پر متفق ہے،افغانستان کے مسئلے پر افہام و تفہیم اور مختلف دھڑوں کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا، گزشتہ روز دہشت گرد حملوں میں شہید جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں،جوانوں نے وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کیا قوم کا سر فخر سے بلند ہے،قبائلی اضلاع میں حالیہ پرامن انتخابات اور ترقیاتی کام پائیدار امن کی جانب پیش رفت ہے۔

گیارہ ماہ میں ہمارے دو طرفہ تعلقات میں جو خاطر خوا بہتری آئی ہے اس کو پوری دنیا نے دیکھا، گیارہ ماہ پہلے ہم پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں، ڈو مور کے مطالبے ہورہے تھے، افغانستان کی جتنی قباحتیں تھیں اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جارہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ افغانستان کی اس لڑائی کا کوئی سیاسی حل نہیں ہے لیکن عمران خان مسلسل کہتے آئے کہ اگر ہم دیر پاامن چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا، افہام و تفہیم اور مختلف دھڑوں کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ آج امریکہ بھی اس بات پر قائل ہے، آج چین، روس، یورپی یونین اور مسلم امہ کے ممالک سب یک زبان ہیں کہ افغانستان کا دیرپا حل سیاسی ہے، یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔

بہرحال حب الوطن پاکستانی سیاستدان اور تجزیہ کار اول روز سے ہی خطے میں قیام امن کیلئے زور دیتے آئے ہیں اور سب کی یہی خواہش رہی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیاجائے تاکہ خطے میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آسکے۔

البتہ اس حساس نوعیت کے معاملے پر سیاست کی بجائے ریاست کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایاجائے۔ موجودہ صورتحا ل میں جس طرح بہتری آرہی ہے اس کا سہرا حکمران جماعت کو جاتا ہے اگرماضی میں کسی نے اس حوالے سے بہتر کردار ادا کیا ہے تو اسے بھی سراہا جائے بجائے بیرون ملک دوروں پر تنقیدکی جائے اور اسے ناکامی سے تعبیر کیا جائے جو ہم سب کی سبکی کا باعث بنتا ہے۔