کوئٹہ کے مصروف علاقے میں بم دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق دھماکا پیر کو مغرب کے وقت کوئٹہ کے مصروف ترین علاقے باچا خان چوک پر سٹی پولیس تھانے سے چند قدم کے فاصلے پر ہوا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔
قریب واقع دکانوں اور سڑک کے کنارے کھڑی موٹرسائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار، فلاحی تنظیموں کے رضا کار جائے وقوعہ پرپہنچے اور لاشوں اور زخمیوں کو سول ہسپتال پہنچایا گیا۔ عینی شاہد ین کے مطابق دھماکے سے پولیس کی ایک گاڑی اور ایک موٹر سائیکل میں آگ بھڑک اٹھی۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو اور ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔
ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ کے مطابق دھماکے کا ہدف پولیس کی موبائل گاڑی تھی۔زخمیوں میں سٹی پولیس تھانہ کے ایڈیشنل ایس ایچ او شفاعت سمیت چارپولیس اہلکار زخمی ہیں جن میں سے تین سول ہسپتال اور ایک سی ایم ایچ میں زیر علاج ہے۔ دھماکے کے بعد اسپیشل برانچ، کرائم برانچ، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ، پولیس اور محکمہ شہری دفاع کی تفتیشی اور بم ڈسپوزل ٹیموں نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرلئے۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکا موٹر سائیکل پر نصب ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کیا گیا جس میں 5سے6کلو گرام بارودی مواد کے علاوہ بال بیرنگ وغیرہ کا بھی استعمال کیاگیا۔ یاد رہے کہ کوئٹہ میں یہ رواں ہفتے کے دوران دوسرا بم دھماکا ہے اس سے قبل23جولائی کو شہر کے نواحی علاقے مشرقی بائی پاس پر ایک کلینک کے باہر سائیکل میں نصب بم دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ 25افراد زخمی ہوئے۔
دہشت گردی کی کارروائیاں ایک بار پھر زور پکڑرہی ہیں جس کا مقصد کوئٹہ سمیت بلوچستان میں بدامنی پھیلانا ہے مگر اس کے تدارک کیلئے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں خاص کر سیف سٹی پروجیکٹ کی بارہا نشاندہی کی گئی ہے کہ اس کی تکمیل کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کیاجائے تاکہ کوئٹہ شہر میں کم ازکم دہشت گردی کے واقعات کو روکا جاسکا، دہشت گردی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
ماضی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح سے کوئٹہ شہر کو لہولہان کیا گیا، خود کش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خوف کا عالم پیدا کیاگیا۔اگرچہ اب ایسے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے مگر دہشت گردی کامائنڈ سیٹ اب تک موجود ہے جسے فوری طور پر تو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے کہ کس طرح سے تخریب کاری میں کمی لائی جائے۔
سیف سٹی پروجیکٹ منصوبہ کا اعلان گزشتہ حکومت کے دوران کیا گیا تھا مگر اب تک یہ مکمل نہیں ہوا ہے جس میں 14 ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جانے ہیں جن کی مانیٹرنگ آئی جی آفس سے کی جائے گی جس کیلئے جگہ بھی مختص کی گئی ہے۔موجودہ حکومت نے بھی سیف سٹی پروجیکٹ کی جلد تکمیل کی نوید سنائی ہے مگر ابھی تک پروجیکٹ سست روی کا شکار ہے، کوئٹہ شہرکے لیے سیف سٹی پروجیکٹ انتہائی ضروری ہے سب سے پہلے دارالخلافہ میں اسے مکمل کیاجائے جس کے بعد دیگر شہروں اور سرحدی علاقوں تک اس کا دائرہ کار پھیلایاجائے۔
سیکیورٹی فورسز خاص کر پولیس کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں امن واپس آیا ہے جس کیلئے پولیس کے اعلیٰ آفیسران کی بڑی قربانیاں شامل ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا،وہ ہمارے ہیروز ہیں جنہوں نے کوئٹہ شہر سے اہم دہشت گردوں کو نہ صرف ختم کیا بلکہ ان کے ٹھکانوں کو بھی ختم کر دیا۔ امید ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے سیف سٹی پروجیکٹ کو اولیت دی جائے گی۔