چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحاریک ناکام ہو گئیں۔صادق سنجرانی کواپوزیشن کے 9 ووٹ ملنے سے متحدہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔قرارداد،پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء راجہ ظفرالحق نے پیش کی اور بیرسٹر سیف نے بطور پریزائیڈنگ افسر اپنے فرائض سرانجام دیئے۔
ایوان بالا میں مجموعی طور پر 104 ارکان ہیں جن میں سے اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا، 103 ممبران نے ووٹنگ میں حصہ لینا تھاجس میں جماعت اسلامی کے دو ممبران سراج الحق اور مشتاق احمد نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جبکہ ن لیگ کے چوہدری تنویر بھی غیر حاضر رہے۔مجموعی طور پر 100 اراکین نے ووٹ ڈالا اور تحریک کے حق میں 51، مخالفت میں 44 ووٹ پڑے جبکہ 5 مسترد ہوئے۔چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک کامیاب بنانے کے لیے حزب اختلاف کو 53 ووٹ درکار تھے۔
جو پورے نہیں ہو سکے۔ ایوان بالا میں حکومت اور اتحادی اراکین کی تعداد 36 تھی جس سے بظاہر لگ رہا تھا کہ تحریک کامیاب ہوجائے گی لیکن اپوزیشن کے 9 اراکین نے بھی صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ ڈالا۔اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ پتہ لگایا جائے مسلم لیگ ن سے کس کس نے ووٹ صادق سنجرانی کو دیا اوراپوزیشن کے 9 ووٹ چیئرمین سینیٹ کو کیسے پڑے؟وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے نتائج پر رد عمل دیتے ہوئے کہا۔
کہ آج باشعور سینیٹرز نے کامیابی حاصل کی اور اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیں سامنے آئی ہیں۔چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا کہ قبائلی علاقہ جات کے بعد ن لیگ اور پی پی پی کو سینیٹ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔چیئرمین سینیٹ کے بعد ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا کیخلاف حکومت کی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہو گئی۔
تحریک پر رائے دہی کے عمل میں حزب اختلاف کی اکثریت نے حصہ نہیں لیا۔سلیم مانڈی والا پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ء ہیں اور ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد حکومتی اتحاد نے پیش کی تھی جس کو کامیاب بنانے کے لیے بھی 53 ووٹ درکار تھے۔اپوزیشن اور حکومت کے کل 32 اراکین نے حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ حزب اختلاف کے صرف 5 اراکین نے ووٹ ڈالا۔پیپلز پارٹی کی جانب سے روبینہ خالد، سلیم مانڈوی والا، محمد علی جاموٹ، قرات العین مری اور ن لیگ کی جانب سے ساجد میر نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
حکومت کی جانب سے بھی سلیم مانڈوی والا کے حق میں دو ووٹ پڑے۔خیال رہے کہ موجودہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ایوان بالا کے پہلے اعلیٰ عہدیداران ہیں جنہیں اپنے انتخاب کے 17 ماہ بعد تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا۔دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جن 14 سینیٹرز نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا، انہوں نے جمہوریت کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج ایک بار پھر کٹھ پتلی کامیاب ہو گیا، اخلاقی طور پر چیئرمین سینیٹ کو مستعفی ہونا چاہیے تھا۔بلاول بھٹو نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ہم پارلیمان اور سڑکوں پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، حزب اختلاف متحد ہے اور ہم عوام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
ہم ہار کر بھی جیت گئے لیکن حکومت کس بات پر خوشیاں منا رہی ہے۔اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ضمیر بیچنے والوں اور جمہوریت کمزور کرنے والوں کی نشاندہی ہو گی جنہیں ہم بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلا رہے ہیں۔
ہم ضمیر فروش 14 سینیٹرز کے خلاف کمیٹی بنائیں گے جو ضمیر فروش سینیٹرز کی نشاندہی کرے گی۔انہوں نے کہا کہ سیلیکٹڈ حکومت آج ضمیر فروشی سے جیتی ہے اور عوام کی عدالت میں حکومت کو شکست ہوئی۔ جب بھی سینیٹ کا اجلاس ہو گا حزب اختلاف احتجاج کرے گی۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کوٹری اسٹیشن پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میں نے دس روز قبل کہا تھا کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی۔ آج سے اپوزیشن کی تنزلی شروع ہوگئی ہے۔ن لیگ اور پی پی کا برا وقت شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ پارٹیاں ہیں جو باپ اور اپنا مال بچاؤ تحریک چلا رہے ہیں، یہ لوگ آج کھل کر سامنے آ گئے ہیں، یہ عمران خان کا استعفیٰ لینے نکلے تھے،عمران کا استعفیٰ کیا ملتا انہیں سنجرانی کا عدم اعتماد نہیں ملا۔شیخ رشید احمد نے کہا کہ اپوزیشن عقل کے ناخن لے،ملک نازک دور سے گزر رہا ہے،ملکی سیاست کا سار ااثر معیشت پر پڑ رہا ہے، اگر یہ باز نہ آئے تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔
شیخ رشید احمد نے کہا کہ آصف زرداری اور نواز شریف کی سیاست کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ اس وقت جو مسائل پیدا کریگا وہ جمہوریت کو کمزرور کریگا۔آج ساری قوم عمران خان کے ساتھ ہے۔فضل رحمان کو کہتا ہوں مدرسہ مدرسہ مت کھیلنا۔ فضل الرحمان سے گزارش کرنا چاہتا ہوں آپ مدرسوں کو شامل نہ کریں۔ایوان بالا کے نتائج سے تو ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اپنے پارٹی فیصلوں سے خوش نہیں ہیں۔
جنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ نہیں دیا، اپوزیشن بہت مطمئن نظر آرہی تھی کہ وہ یہ معرکہ باآسانی مار لے گی مگر نتیجہ بالکل اس کے برعکس نکلا جو اپوزیشن کیلئے بڑا جھٹکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جو ردعمل سامنے آرہا ہے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اراکین پر دباؤ ڈالنے سے اپوزیشن مزید منتشر ہوجائے گی۔
اور شاید وہ حکومتی جماعتوں میں شامل ہوجائیں۔بہرحال یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومتی اتحاد تو اپنی جگہ مضبوط ہے جبکہ اپوزیشن کمزور پوزیشن پر ہے۔ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی تحریک کی ناکامی سے اپوزیشن کی مقبولیت اور فیصلوں سے بھی عوام کی رائے اب مختلف دکھائی دے گی۔موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں حکومت نے بڑا معرکہ مارلیا جبکہ اپوزیشن ناکام ہوگئی ہے۔ اپوزیشن آگے کیا لائحہ عمل اپنائے گی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔