|

وقتِ اشاعت :   August 3 – 2019

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی ۔ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے کےلئے مطلوبہ اکثریت ثابت نہ کرسکی ۔ چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے کےلئے پیش کی جانے والی قرار داد پر ہونے والی خفیہ ووٹنگ کے نتیجے میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف 50ووٹ پڑے جبکہ اس کے حق میں 45ووٹ آئے اور5ووٹ مسترد ہوئے ۔

اپوزیشن اراکین نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد میں اپوزیشن کے 14اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے ،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوگئی ۔ جمعرات کے روز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کے حوالے سے منعقدہ اجلاس پریذائیڈنگ آفیسر بیرسٹر سیف کی سربراہی میں منعقد ہوا ۔

اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک کے حق میں 64اراکین نے ووٹ دیاجس کے بعد قرارداد پر خفیہ رائے شماری کی گئی ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی ۔ پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ آئین کے مطابق قرارداد کے حق میں 50 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ قرارداد مطلوبہ اکثریتی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے جبکہ 5 ووٹ مسترد ہوئے ۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تو ناکام ہوگئی مگر سب سے زیادہ زیر بحث موضوع بھی یہی ہے ۔ چونکہ اس کا انتہائی غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا جس نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا خاص کر اپوزیشن جماعتیں اس نتےجہ سے بالکل مطمئن نہےں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جب تحریک پیش کی گئی تو اس دوران 64اراکےن نے کھڑے ہوکر اس کی حمایت کی اور بعد میں 14 ووٹ اپوزیشن کے خلاف گئے ۔

یہ 14ارکان کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس حوالے سے اب تک ابہام ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دعویٰ تو کیاجارہا ہے کہ ان کی نشاندہی کرکے عوام کے سامنے لایاجائے گا ۔ اس طرح ایوان کے تقدس اور اس پر حملے کے خلاف اپوزیشن کے بڑے بیانات بھی آرہے ہیں مگر یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ ماضی میں جس طرح سے سینیٹ امیدواروں کوانہی جماعتوں نے ایوان بالا تک پہنچایا ۔


ہ کس طرز عمل کا رہا ہے ۔ ہمارے یہاں ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے ،کہاجائے کہ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ یعنی جس طرح کا بیج بویا وہی آج کاٹنے کومل رہا ہے تو غلط نہےں ہوگا ۔ آج صرف 14 سینیٹرز کا تذکرہ کیاجارہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایوان بالا میں سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنی من پسند شخصیات کو اپنے ذاتی وگروہی مفادات کے تحت ایوان بالا تک پہنچایا ہے، اگرسےنٹ ممبران کا چناءوپےسے کی بنےاد پر نہےں ، خلوص اور نےک نےتی کی بنےاد پر ہوتا تو شاید آج نتےجہ کچھ اورہوتا ۔ ملک میں جب بھی سینیٹ انتخابات ہوتے ہیں ۔

تو ہارس ٹریڈنگ اور ممبران کی خرےدو فروخت کے بھاءو کافی اوپر چڑھتے ہےں پھر یہی سیاسی پارٹیاں اس بات پر پریشان ہوتی ہیں کہ ان کے عوامی نمائندے ’’قابل فروخت ‘‘ ہیں ’ ان کو خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ملک کا شاید ہی کوئی صوبہ ہو جہاں سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا معاملہ نہیں آتا ،ایک ووٹ کی قیمت دس کروڑ روپے سے تجاوز کر جاتی ہے ۔

اور اسی وجہ سے کرپشن پروان چڑھتاہے اور بدلے مےں اصولوں کی سیاست دفن ہوکر رہ گئی ہے ۔ بہرحال چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد اپوزیشن جماعتیں سب سے پہلے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں کہ آیا ان کیلئے مخصوص شخصیات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں یا وہ پارٹی کے وہ نظریاتی کارکن جو پارٹی کے ساتھ ایک کمٹنٹ کے ساتھ چلتے ہیں ۔ جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری عمل کمزور رہے گا ایسی انہونےاں انہیں آگے بھی دیکھنے کو ملیں گی ۔