مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے جس طرح آئینی وار کیا ہے اس گھناؤنے عمل کے بعد کشمیر کا مسئلہ پوری دنیامیں بھرپور طریقے سے اجاگر ہو اہے بعض عالمی ممالک نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے امن کیلئے انتہائی خطرناک قدم قرار دیا ہے مگر بھارتی جارحانہ رویہ پلوامہ واقعہ کے بعد ایک تسلسل سے جاری ہے باوجود اس کے پاکستان نے بارہا مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی مگر بھارت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے بازنہیں آتا۔
اور اسی طرح وہاں کی میڈیا بھی ایک پروپیگنڈہ کے طورپر کام کررہی ہے بجائے اس کے کہ اصل حقائق کو سامنے لاتا۔ گزشتہ چند دنوں سے مقبوضہ وادی میں حالات انتہائی تشویشناک ہیں نہتے کشمیریوں پر ہر قسم کی ظلم وزیادتیاں جاری ہیں جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور کشمیر کے تمام لیڈران کو نظر بند کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی علاقے میں مواصلاتی نظام مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
تاکہ اصل معلومات دنیا تک نہ پہنچ سکیں جوکہ بھارت کی انتہاء پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے قومی سلامتی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارت معطل اور سفارتی رابطے کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے قومی سلامتی اجلاس کی صدارت کی جس میں اعلیٰ سیاسی اورعسکری قیادت نے شرکت کی۔اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا اور بھارتی بربریت کو بے نقاب کرنے کے لئے تمام سفارتی چینل بروئے کار لائے جائیں گے۔
اعلامیہ کے متن میں درج ہے کہ پاکستان میں 14 اگست کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور 15 اگست کو یوم سیاہ منایا جائے گا۔عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں شریک سیاسی و عسکری قیادت نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ بھارت کے غیر آئینی اقدام کو سلامتی کونسل میں لے جایا جائے گا۔ مسلح افواج کو چوکس رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔واضح رہے کہ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ردعمل کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
جس میں وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی احمر بلال صوفی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اٹارنی جنرل، سیکرٹری خارجہ، آئی ایس آئی، ملٹری آپریشنز اور آئی ایس پی آر کے ڈی جیز شامل ہیں۔پاکستان نے بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے پر بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پانچ نکاتی اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی ہے کہ سفارتی تعلقات محدود کیے جانے کے نتیجے میں بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا جائے گا اور اسلام آباد میں تعینات ان کے ہم منصب کو واپس بھیج دیا جائے گا جبکہ نئی دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیں گے اور ان کے ہائی کمشنر کو واپس بھیج دیاجائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلے بھی کیا گیا ہے۔پاکستان نے اب ہر فورم کو نہ صرف استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے بلکہ بھرپور طریقے سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کیلئے عالمی برادری سے برائے راست بات چیت اور رابطوں کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ کشمیر یوں پر جاری بھارتی جارحیت سے دنیا کو آگاہ کیاجاسکے۔