بلوچستان میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت رہی ہو جس نے یہ نہ کہا ہو کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع موجود ہیں مگر بہترمنصوبہ بندی اور قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ کوفائدہ نہیں پہنچا جس کی ذمہ دار ماضی کے حکومتیں رہی ہیں۔
اگر پالیسی کے ساتھ ساتھ قانون سازی پر توجہ دی جاتی تو حالات ایسے نہ ہوتے جس کا ہمیں سامنا کرناپڑرہا ہے۔ بہرحال یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے نتیجہ سامنے ہے کہ بلوچستان میں آج بھی بڑے منافع بخش منصوبے چل رہے ہیں مگر صوبہ کے محاصل نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں سے پانچ سے پچیس فیصد آمدن ملنی چاہئے صرف دو فیصد مل رہی ہے، باقی سارا منافع وفاق اور کمپنیاں لے جاتی ہیں۔
اور صوبائی حکومت ہاتھ ملتے رہ جاتی ہے حالانکہ صوبائی حکومت اپنے تمام قانونی اور آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنا جائز حق لے سکتی ہے مگر نہ جانے کیا مصلحت آڑھے آتی ہے کہ وفاق اور کمپنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے جاتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے اس کی ایک وجہ کرپشن بھی ہے جہاں من پسند افراد کو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں اور وہ اپنے ذاتی مفادات کے عوض اربوں روپے کے منصوبوں کو چندٹکوں کی لالچ میں فروخت کردیتے ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان کی پہلی مائنز اینڈ منرل ڈیویلپمنٹ پالیسی 2019 متعارف کرائی گئی۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ قوانین میں ترامیم اور ریفارمز لائے بغیراداروں کی استعداد کار بڑھانا نا ممکن ہے، حکومت کو ریونیو دینے والے اداروں کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان مائنز اینڈ منرل ڈوپلمنٹ پالیسی سے صوبے میں سرمایہ کار متوجہ ہونگے،محکمہ مائنراینڈ منرلز کا ریونیو ہدف 5ارب روپے تک لیکر جائیں گے۔ بلوچستان کابینہ سے مائنز اینڈ منرلز پالیسی کی منظوری کے بعد پالیسی پرمختلف اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ بلوچستان میں مختلف اقسام کے منرلز موجود ہیں لیکن پالیسی فرسودہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور مائنرز کو مشکلات کا سامنا تھا۔مائنز اینڈ منرلز کا شعبہ بلوچستان کا اہم ترین شعبہ ہے جس سے صوبے کو وافر آمدن حاصل ہوسکتی ہے لیکن ماضی میں اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
جام کمال خان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس شعبے کو بہتر کر نے کے لئے اقدامات کاآغاز کیا ہے جس کا پہلا قدم نئی مائنز اینڈ منرلز ڈیویلپمنٹ پالیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب اداروں کو بہتر نہیں کیا جاتا تو اداروں کی کارکردگی نیچے کی طرف جاتی ہے، ادارے حکومت کو کما کر نہیں دے پاتے اگر ادارے ریونیو حاصل نہ کریں تو حکومت چل نہیں سکتی، نہ پی ایس ڈی پی، نہ ہی ترقیاتی کام ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی علاقے میں جانے سے قبل سرمایہ کار وہاں کی پالیسی کو دیکھتے ہیں، بلوچستان میں پالیسیاں پرانی ہونے کی وجہ سے یہاں سرمایہ کار نہیں آرہے تھے لیکن نئی منرل پالیسی سے سرمایہ کاری پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔جام کمال خان نے کہا کہ اس پالیسی کو سرمایہ کار دوست بنایا گیا ہے۔
موجودہ حکومت کی کاوشیں قابل تحسین ہیں مگر ماضی سے ہٹ کر نئی بات کچھ نہیں کیونکہ نتائج ہی اس کا تعین کریں گی کہ پالیسیوں پر عملدرآمد کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا اور اس کا برائے راست فائدہ صوبہ کو ملے گا۔ یقینا جو آمدن آئے گی وہ صوبائی خزانے میں ہی جائے گی جس سے بہتر پی ایس ڈی پی نہ صرف بنائی جاسکتی ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ سرمایہ کاری کا حکومت کو موقع ملے گاجس سے مزید محاصل ہوں گے اور اس طرح انسانی وسائل پر بھی خاص توجہ دی جاسکتی ہے جو صوبہ کے عوام کی زندگی میں تبدیلی لاسکے کیونکہ ماضی سے لیکر اب تک خسارہ کابجٹ زیادہ پیش کیا گیا ہے۔
جہاں میں غیر ترقیاتی مد میں رقم زیادہ رکھی جاتی ہے جسے پورا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ صوبہ میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ بہترمنصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کے دوررس نتائج برآمد ہوسکیں۔بارہا اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جتنی بھی کمپنیاں بلوچستان میں سرمایہ کاری کیلئے آتی ہیں تمام سیاہ وسفید کا مالک ان کو نہ بنایا جائے کیونکہ ان کی تمام تر کوشش اپنے منافع پر ہی مرکوز ہوتی ہے جب تک صوبائی حکومت خود برائے راست ان معاہدوں کا حصہ نہیں بنے گی تو ان کا فائدہ کچھ نہیں ملے گا۔
بہرحال مائنز اینڈمنرلز ڈویلپمنٹ پالیسی ایک بہترین اقدام ہے اور ان قوانین کومکمل لاگو کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ بہتر انداز میں نہ صرف سرمایہ کاری ہوسکے بلکہ اس کا فائدہ بھی صوبہ کو ملے۔امید ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ قانو ن سازی پر توجہ دے گی تاکہ صوبہ کے وسائل کو بے دریغ لوٹنے سے بچایا جاسکے اور جوجائز منافع ہے وہ فریقین کو مل سکے۔