|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2019

مقبوضہ کشمیر کی جب سے 370 شق کے ذریعے خصوصی حیثیت ختم کی گئی ہے،اس بھارتی اقدام کے خلاف مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان میں یوم آزادی کو یوم کشمیر سے منسوب کرکے بھرپور انداز میں منایا گیا،ملک بھر میں بڑی تقاریب کا انعقاد کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر روشنی ڈالی گئی جس کے عوام اس وقت بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ ہے۔

وہاں کرفیونافذ ہے،مساجد کوتالے لگائے گئے ہیں عید کی نماز تک پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، مذہبی آزادی پر قدغن لگانے سمیت انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے،بھاری بھرکم فوج تعینات کی گئی ہے،نہتے کشمیریوں کے پُرامن احتجاجی مظاہروں کے خلاف خطرناک ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں۔

جس سے متعدد کشمیری زخمی ہوئے ہیں اب بھی کشمیر میں ہُوکاعالم ہے، ہر گھر کو عقوبت خانہ میں تبدیل کردیا گیا ہے، غذائی اجناس سمیت ضروری اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس سے کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جوکہ ایک خطرناک عکس پیش کررہا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اورگھمبیر صورتحال پر پاکستان نے سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کے لیے خط ارسال کیا تھا جس کے بعد پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر 16 اگست کو اجلاس طلب کرلیا ہے۔

اجلاس میں سلامتی کونسل کے رکن ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر آئینی اقدام کے بعد کی صورت حال پر غور کریں گے۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے صدر سلامتی کونسل کو لکھے خط میں اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی جس کی حمایت روس نے بھی کی تھی۔واضح رہے کہ 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہوگی جسے پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارا راستہ امن کا ہے اور ہم نے کبھی جنگ کو ترجیح نہیں دی۔ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اسی وجہ سے بھارت سلامتی کونسل اجلاس کی مخالفت کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری روسی ہم منصب سے مفصل گفتگو ہوئی جن کو تفصیل سے پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ قیادت اور عوام ساتھ ہو تو فوج لڑتی ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ مودی ہیں اور ان کی سوچ خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فروری میں مودی نے الیکشن جیتنے کے لیے کشمیر کو داؤ پر لگا دیا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی کشمیر میں مظالم دیکھنے چاہئیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو عید کی نماز نہیں پڑھنے دی گئی، او آئی سی کی تمام قیادت سے کہتا ہوں کہ کشمیر کے معاملے پر کردار ادا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کام نیک نیتی سے سلامتی کونسل میں مقدمہ پیش کرنا اور لڑنا ہے۔شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اگر کوئی ہم پرجنگ مسلط کرتا ہے تو ہمیں دفاع کا حق حاصل ہے۔بہر حال اس وقت کی سب سے بڑی پیشرفت سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہے جہاں کشمیر کی حالیہ صورتحال پر پاکستان اپنا مؤقف رکھے گا مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ اس پوری صورتحال میں اپنے ثالثی کے بیان پر کھڑا رہے گا جو ڈونلڈٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر دیا تھا۔

توقع تو یہی کی جارہی ہے کہ ستر سال سے موجود کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد کیا جائے گا جو اب تک نہیں ہوسکا۔اوریہ اجلاس سلامتی کونسل میں شامل رکن ممالک کی نیت اور کشمیر پر ان کی پالیسی کو آشکار کرے گاکیونکہ گزشتہ ستر سالوں سے کشمیر کی حق خودارادیت کی قراردادکو سرد خانے کی نذر کر دیا گیا تھا مگر آج صورتحال کچھ اور ہے کشمیر کے معاملے کوحل کرنا ضروری ہے وگرنہ اس کے آگے جاکر نتائج بہت ہی خطرناک نکلیں گے۔