|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2019

بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ پولیو کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بلوچستان میں خصوصی پولیو مہم شروع کردی گئی ہے۔ بلوچستان کے7 اضلاع میں 7روزہ خصوصی پولیو مہم کے پہلے مرحلے میں کوئٹہ اور پشین میں مہم کا آغاز کر دیا گیا جبکہ آج یعنی28اگست سے نصیرآباد، جعفرآباد، جھل مگسی، صحبت پور اور 2 ستمبر کو قلعہ عبداللہ میں پولیومہم شروع کی جائے گی۔

بلوچستان میں رواں سال پولیو کے چار کیسز سامنے آئے ہیں دو قلعہ عبداللہ، ایک کوئٹہ جبکہ ایک جعفرآباد میں رپورٹ ہوا ہے جس کی بنیاد پر پولیو کی خصوصی مہم شروع کی جارہی ہے۔ پولیو مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے 10لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ پولیو مہم میں 4ہزار460کے قریب ٹیمیں حصہ لیں گی۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا میں پولیو کے مزید تین اور حیدرآباد میں دو کیسز سامنے آئے ہیں،خیبرپختونخواہ میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی مجموعی تعداد 44 ہوگئی ہے، ملک بھر میں پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 58 ہوگئی ہے۔

پولیو سے متعلق ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق خیبر پختونخوا میں پولیو کے نئے کیسز میں ایک بنوں، ایک ہنگو اور ایک شمالی وزیر ستان سے سامنے آیا ہے۔ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق پولیو سے متاثرہ بچوں میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں شامل ہیں،ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق خیبرپختونخوا میں پولیو کیسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ والدین کی جانب سے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار ہے۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس کی صورت حال خطرناک ہوچکی ہے۔بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں بیشتر پولیو کیسز کے سامنے آنے کی وجہ والدین کا پولیو سے پلانے سے انکار ہے جس کے پیچھے چند عناصرکارفرما ہیں جو پولیو ویکسیئن کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں واضح رہے کہ خیبرپختونخواہ میں اسی طرح کا ایک ڈرامہ رچایا گیا کہ ایک شخص پولیوویکسیئن سے متاثرہ بچوں کو ڈرامائی انداز میں سامنے لاتا ہے۔

اور میڈیا بھی اس کی مکمل بروقت کوریج کرتا ہے مگر یہ پورا عمل بعد میں کھل کرسامنے آتا ہے کہ اس شخص نے ایک سازش کے تحت پولیو مہم کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہ تمام عمل کیا۔ ایسے حساس معاملات پر میڈیا کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس خبر کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد اسے میڈیا پرچلانا چائیے تھا کیونکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے جو عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس لئے اس میں میڈیا سمیت تمام شعبوں کا کلیدی کردار ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے اس مہلک بیماری کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کریں جبکہ منفی پروپیگنڈہ کو زائل کرنے کیلئے ہر فورم کو بھی بروئے کارلائیں تاکہ اس خطرناک وائرس کا خاتمہ ہمارے یہاں سے ہوجائے۔ دوسری ایک بڑی وجہ پولیو ورکرز پر دہشت گردوں کے حملے بھی ہیں جو عموماََ کے پی کے اور بلوچستان میں زیادہ ہوتے ہیں۔

اس لئے بعض علاقوں کو حساس قرار دیا جاتا ہے جہاں سیکیورٹی زیادہ لگائی جاتی ہے تاکہ اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کیاجاسکے۔ سب سے پہلے یہ ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کیلئے پولیومہم کے دوران اپنے بچوں کو قطرے پلائیں اور کسی منفی پروپیگنڈہ کو خاطر میں نہ لائیں۔

اس کے بعد یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پولیو مہم کے خلاف جوبھی منفی پروپیگنڈہ کرتا ہے اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے اور اسے سخت سزا دے تاکہ کوئی بھی ہمارے بچوں کے مستقبل کو اپنے گھناؤنے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔ اسکے علاوہ تمام مکاتب فکر کابھی اس مہم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔