بلوچستان عرصہ درا ز سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے ظاہر ہے یہ حالات افغان جنگ کے بعد ملک میں برائے راست پڑے ہیں جو دہائیوں سے چلتا آرہا ہے بنیادی طور پر بلوچستان کی تاریخ انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے ہمیشہ دور رہی ہے بلکہ ملکی ڈھانچے اور معاشرے میں اس طرح کی سوچ کبھی پروان نہیں چڑھی بدقسمتی سے سابقہ چند پالیسیوں کی وجہ سے اس کے انتہائی برے اثرات ملک پر پڑے جو اس وقت دنیا کے ساتھ چلنے والی ایک پالیسی کا حصہ تھی مگر اب یہ حالات بدستور بدلتے جارہے ہیں۔
اور حال ہی میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں کافی پیشرفت ہوچکی ہے جس کے بعد امریکہ افغانستان سے انخلاء چاہتا ہے مگر اس وقت افغانستان میں استحکام اور شدت پسندی کے مکمل خاتمے اور بہترین حکومت کے قیام کے بعد ہی امریکی واپسی ضروری ہے کیونکہ جو اثرات اس جنگ نے افغانستان پر چھوڑے ہیں یہ اتنی جلدی بدلنے والے نہیں لہٰذا اس میں خطے کے تمام ممالک خاص کر پاکستان کا بھی اہم کردار ہے۔
جس کیلئے پاکستان نے پہلے ثالثی اور افغانستان میں دیرپاامن کیلئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے اور قوی امکان ہے کہ جلد ہی افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات ہونگے جس کے بعد انخلاء کے عمل کو سلسلہ وار شروع کیا جائے گا۔ بلوچستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے ہمارے یہاں خود کش حملے، بم دھماکے اورٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نہ صرف اہم شعبہ کے شخصیات بلکہ عوام کو نشانہ بنایاگیا جانی نقصان کا ازالہ کسی صورت نہیں ہوسکتا جس کا خمیازہ بلوچستان نے اٹھایا۔
اور آج بھی ہمارے محسنوں کی شہادت نے گہرے نقش چھوڑے ہوئے ہیں، دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے متعلق پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت منعقد ہوا، نیشنل ایکشن پلان میں شامل مختلف نکات پر ان کی رو ح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنانے پر اتفاق کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی گورننس، مثالی طرز حکومت،معاشی ترقی کے اہداف کے حصول، عوام کو تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں اور نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے زریعے عسکریت پسندی۔
انتہا پسندی اور منفی سوچ کو معاشرے پر اثر انداز ہونے سے روکنے اور اس رجحان کے تدارک کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ دیرپا امن کا قیام ممکن ہو سکے اور سیکورٹی کے مسائل میں نمایاں کمی آئے، صوبے کی سماجی و معاشی ترقی کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے جاری اقدامات اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کے تعاون پر اجلاس شرکاء نے اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو امن وترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے حکومتی اقدامات میں ہر طبقہ فکر کی شراکت داری ضروری ہے اور تمام اہم صو بائی امور پر سب کو ساتھ لیکر چلنا حکومتی پالیسی کا اہم جزو ہے، انہوں نے کہا کہ مالی سال20۔2019ماضی کے سالوں سے بہت مختلف ہو گا اور عوام سیاسی،معاشی اور ترقیاتی شعبوں میں مثبت تبدیلی محسوس کرینگے۔موجودہ حکومت نے جس طرح نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور عسکریت پسندی، انتہاء پسندی اور منفی سوچ کو معاشرے سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی حکومت کو بلوچستان کو درپیش ایک اہم مسئلہ پر بھی سوچ وبچار کرنا چاہئے۔
اور وفاقی حکومت کے سامنے اس معاملے کو رکھے غیر قانونی افغان مہاجرین کی انخلاء بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہمیشہ رہا ہے اور عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ غیر قانونی مہاجرین کو جلد باعزت وطن واپس بھیجا جائے کیونکہ بلوچستان میں مہاجرین کی موجودگی سے صوبہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے جس کا اظہار بارہا کیا جاچکا ہے امید ہے کہ اس معاملے کو بھی جلد حل کیا جائے گا۔