|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2019

دنیا ایک طرف امن اور خوشحالی کی خواہش مند ہے خاص کر امریکہ اس وقت خطے میں صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کررہا ہے جس کے مختلف دور ہوچکے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکے اور خطے میں موجود عدم استحکام کا خاتمہ ہوسکے جس کیلئے پاکستان کا کردار بھی اہم ہے اور پہلے دن سے اس امن عمل کے حوالے سے پاکستان نے ہر فورم پر یہی بات دہرائی ہے کہ افغانستان کا مسئلہ صرف بات چیت سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

جنگی نتائج خطرناک برآمد ہونگے جوکہ کسی کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان کے اس عمل کو امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے سراہا اور یہ بات بھی واضح ہے کہ افغان جنگ میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا ہے، اگر پاکستان کی اس جنگ سے امن تک کے دور کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے خطے سے شدت پسندی، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔

مگر اس تمام عمل کے باوجود پاکستان کو وقتاََ فوقتاََ تنقید کا نشانہ بنایا گیا بجائے اس کے کہ پاکستان کے اس عمل کے بعد اسے ہر لحاظ سے اہمیت دی جاتی جس طرح کہ آج بھارت کو دنیا میں ایک لاڈلے کے طورپر امریکہ نے سامنے لایا ہے، یہ دنیا کا دوہرا معیار ہے حالانکہ خطے میں جب امن کی بات آتی ہے افغانستان میں مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی جاتی ہے۔

تو پاکستان کو فرنٹ پر لایاجاتا ہے مگر تجارتی حوالے سے پاکستان کو مکمل نظرانداز کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں امریکہ سمیت عالمی برادری سرمایہ کاری کرتی یہ احسان نہیں بلکہ ایک اہم اتحادی کے ناطے پاکستان کا حق بنتا ہے۔ بہرحال شروع سے لیکر اب تک دنیا پاکستان کو اس طرح اہمیت نہیں دے رہی جس کی واضح مثال مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے پاکستان نے ایک قدم آگے بڑھ کر امریکہ کی ثالثی کو بھی سراہا مگر بدلے میں بھارت نے اس امریکی پیشکش کو ٹھکرادیا۔

آج کشمیری اور پاکستانی عوام دنیا سے یہ سوال کررہے ہیں کہ جب کسی بھی ملک یا خطے میں جنگی حالات ہوتے ہیں تو پوری دنیا اس میں کود پڑتی ہے افسوس کہ کشمیر کے معاملے پرسب نے لب سی لئے ہیں۔ گزشتہ روزوزیراعظم عمران خان نے غیرملکی خبررساں ادارے میں ایک مضمون کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی رویہ کو دنیا کے سامنے لایا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ دنیا کشمیر کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور ایسا ہوا تو ہم سب ایٹمی جنگ کے خطرے کی لپیٹ میں ہوں گے۔اگر دنیا کشمیر اور اس کے عوام پر انڈین حملہ روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتی تو پھر دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستیں براہِ راست فوجی محاذ آرائی کے قریب آ جائیں گی۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ برس اگست میں پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میری اولین ترجیحات میں سے ایک یہ تھی کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے کام کیا جائے۔

یہ چند سطور اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان اب بھی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں عالمی برادری کو بھی متوجہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا امن کے پرچار اور دعویٰ کرنے والے عالمی ممالک حالات کی سنگینی اور حساسیت کو سمجھتے ہوئے برائے راست کر دار ادا کریں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ
کشمیر میں جاری مظالم بند کردے اور مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرے تاکہ ایک بڑی جنگ سے خطے کو بچایا جاسکے۔