مقبوضہ کشمیر گزشتہ ستر سالوں سے عالمی مسئلہ رہا ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ یہ واضح ہے کہ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں ایک قرارداد جسے دستاویزاتی ثبوت کے طور پر واضح کرتا ہے اور اسے حل کرنا بھی اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے مگر بدقسمتی سے اقوام متحدہ کا جو کردار ہونا چاہئے اس پر پہلے سے ہی سوالات موجود ہیں کیونکہ جب بھی اسلامی ممالک مظالم کا شکار ہوئے ہیں۔
تو اس پر کبھی بھی کھل کر اقوام متحدہ سامنے نہیں آیا اس کی نسبت غیر مسلم ممالک کے معاملے پر نہ صرف برائے راست مداخلت کی بلکہ فوری حل کرنے کیلئے متحرک رہی ہے۔یہی بات گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی دہراچکے ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر حکمرانوں کا بھی اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے شکوہ رہا ہے۔ بہرحال کلبھوشن یادیو کے مسئلے سے کشمیر کو جوڑنا غلط ہے۔
جس طرح سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے یہ غلط ہے کیونکہ یہ عالمی عدالت کے فیصلے کے مطابق پاکستان نے کیا،کسی کی بھی حکومت ہوتی تو اسے عالمی قوانین کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا پڑتا جو کہ موجودہ حکومت کررہی ہے اور جس پر دفتر خارجہ نے واضح طور پر اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو بلا روک ٹوک قونصلر رسائی فراہم کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر نے کلبھوشن یادیو سے 2 گھنٹے ملاقات کی۔پاکستان نے بھارت کو بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر، را کے ایجنٹ جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دے دی، یہ قونصلر رسائی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں دی گئی، کلبھوشن یادیو سے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیا کی ملاقات دن 12 بجے شروع ہوئی، قونصلر رسائی میں حکومت پاکستان کے حکام بھی موجود تھے، اعلامیہ کے مطابق بھارتی درخواست پر ڈپٹی ہائی کمشنر اور کلبھوشن کے درمیان کسی بھی زبان میں بات کرنے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔
ملاقات کو شفافیت اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت ریکارڈ کیا گیا، ریکارڈنگ کے بارے میں بھارت کو پہلے سے ہی بتادیا گیا تھا۔ عالمی برادری کا ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان نے بلا رکاوٹ اور بے خوف ماحول میں کونسلر رسائی فراہم کی ہے۔ اب اس تمام صورتحال کو موجودہ کشمیر کے حالات سے جوڑنا اور حکومتی اقدام کو غلط قرار دینا سطحی طور پر ناانصافی ہے۔
حکومت نے مکمل ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کیا اور دنیا کو یہ واضح پیغام گیا ہے کہ پاکستان عالمی قوانین کی مکمل پاسداری کررہا ہے مگر بدقسمتی سے بھارت نے پھر اپنا مکروہ چہرہ سامنے لاتے ہوئے الزامات کا سلسلہ شروع کیا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو شدید دباؤ کے باعث پاکستانی الزامات تسلیم کر رہا ہے جبکہ ناظم الامور کی رپورٹ کے بعد عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ پر عمل درآمدسے متعلق بتائیں گے۔بھارتی ڈپٹی کمشنر کی کلبھوشن یادیو سے ملاقات پر ترجمان بھارتی دفتر خارجہ نے کہا کہ ڈپٹی ہائی کمشنر کی کلبھوشن یادیو سے ملاقات کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
رپورٹ ملنے کے بعد جائزہ لیں گے کہ عالمی عدالت انصاف کے احکامات پر عمل ہوا ہے یا نہیں۔بھارت کے اس ردعمل سے اس کی نیت کو جانچا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی مثبت عمل کو منفی طرز پر پیش کرتا ہے جس طرح سے وہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر متعدد بار اپنے ہی مؤقف سے پیچھے ہٹا ہے کہ کشمیر کو کبھی اپنا اندرونی معاملہ تو کبھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ قرار دیتا ہے۔
اس دہرے معیار سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی پالیسی منافقانہ طرز کا ہے اور یہ مہذب دنیا میں آشکار ہورہا ہے۔لہٰذا پاکستانی عوام اور سیاست دان کشمیر کے حوالے سے یک زبان ہوکر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف اپنا کردار ادا کریں تاکہ ایک قومی پیغام کشمیر کے مسئلے پر دنیا کو جائے۔