پاکستان بھر کی 12سو کلومیٹر طویل ساحلی پٹی قدرتی دولت سے مالا مال ہے بدقسمتی سے ٹرالر مافیا اس کا غیر قانونی طریقے سے استحصال کررہی ہے جوکہ افسوسناک امرہے۔ یہ ساحلی پٹی طویل ہے اور اگر ایرانی بلوچستان کے ساحلی پٹی کو مکران کے ساحل سے ملادیا جائے تو یہ 3ہزار کلومیٹر طویل پٹی بنتی ہے جس پر ٹرالر مافیا کا راج قائم و دائم نظر آتا ہے۔پاکستان کے اندر بلوچستان کا حصہ 80فیصد سے زیادہ ہے۔
جبکہ ایرانی بلوچستان کاسو فیصد ساحلی علاقہ بلوچ ساحل پر مشتمل ہے جو ساحل مکران کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 8ہزار سے زائد ٹرالرز بلوچستان کے سمندری حدود میں شکار کررہے ہیں اور تباہ کن جال استعمال کرتے ہیں جس سے سمندری حیات کا مکمل طور پر خاتمہ ہورہا ہے۔ ساحل مکران میں پاکستان نیوی، کوسٹ گارڈ، میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے پاس تما م وسائل موجود ہیں۔
بلوچستان کے عوام خصوصاً غریب ماہی گیر یہ ضرور توقع رکھتے ہیں کہ یہ ادارے بلوچستان کے سمندری حیات کا دفاع کریں گی اور ان کو ہر قیمت پر تباہی سے بچائیں گی کیونکہ یہ دولت ملک کی ہے اس کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ سمندری حیات کی حفاظت کرے۔ضروری ہے کہ سمندر ی حدود کی حفاظت پر مامور سیکورٹی ادارے تمام غیر قانونی طور پر شکار کرنے والوں کو گرفتار کریں اور ان کے ٹرالر ضبط کیے جائیں۔
یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ساحل مکران پر موجود تمام دفاعی اداروں سے رابطہ کرے اور ان سے مدد طلب کرے کہ وہ ملکی سمندری حیات کی حفاظت کریں اور ان تمام ٹرالروں کو قبضہ میں لے کر صوبائی حکومت کے حوالے کریں تاکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔سمندری حیات ایک قیمتی خزانہ ہے جو قدرت کی طرف سے بلوچستان اور اس کے عوام کو عطا کیا گیاہے۔
اس کے بہتر استعمال سے ملک سالانہ دس ارب ڈالر کماسکتا ہے اور ساتھ ہی ملک بھر میں پروٹین کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ساحل مکران میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ بلوچستان کے لاکھوں لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کرسکے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ خاص پروگرام تشکیل دیاجائے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے۔ گزشتہ روز ضلع گوادر کے ماہی گیر تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ساحل جیونی، پشکان اور گوادر سمیت ضلع کے دیگر ساحلی علاقوں میں غیر قانونی ٹرالنگ میں تشو یش ناک حدتک اضافہ ہوچکا ہے سندھ کے ٹرالرز بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ دن کے اجالے میں سمندر کے ممنوعہ ساحلی علاقوں میں مچھلیوں کا غیر قانونی شکار کر تے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ماہی گیروں کے روزگار پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ محکمہ فشر یز استعداد رکھنے کے باوجود غیر قانونی ٹرالنگ کو روکنے میں ناکام رہا ہے جبکہ فشر یز کی وزارت مال کماؤ کا ادارہ بن چکاہے جس کی سر پرستی میں غیر قانونی ٹرالنگ میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔ ماہی گیروں کی شکایت عرصہ دراز سے چلتی آرہی ہے کہ غیر قانونی طریقے سے مچھلیوں کا شکار کیاجارہا ہے جس سے انہیں معاشی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ساحلی پٹی پر بسنے والے بیشتر افراد کا روزگار اسی سے وابستہ ہے مگر جس طرح طویل عرصہ سے ان کے معاشی حقوق پر ٹرالر مافیا ڈاکہ ڈال رہی ہے ان کے خلاف سخت کارروائی دیکھنے کو نہیں مل رہی،یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماہی گیروں کے معاشی حقوق کا نہ صرف تحفظ کرے بلکہ ساحل مکران میں جس طرح نایاب مچھلیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اس کی روک تھام کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جوکہ صوبہ کے خود مالی مفاد میں ہے اگر اس پر سرمایہ کاری اور توجہ دی جاسکے۔