|

وقتِ اشاعت :   September 6 – 2019

بلوچستان میں صنعتی زونز کے قیام سے معاشی انقلاب برپا ہوگا جس سے یہاں کے سرمایہ کار بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ماضی میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث یہاں کے بیشتر سرمایہ کار اپنا سرمایہ بیرونی ممالک میں لگانے پر مجبور ہوئے مگر اب بلوچستان سمیت ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے جو سرمایہ داروں کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتاہے اب وہ سرمایہ دار بھی اپنے ملک کو زیادہ ترجیح دیتے ہوئے اپنا پیسہ ملک میں لگائینگے جس سے نہ صرف ملکی خزانہ کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عام لوگوں کو بھی معاشی فوائد حاصل ہونگے۔

اس کے ساتھ ساتھ لیبرانسٹیٹیوٹس کے قیام پر بھی ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ لیبر انسٹیٹیوٹس سے یہاں کے مقامی باشندے تربیت حاصل کرکے نکلیں گے تو روزگار کے زیادہ مواقع انہیں کو حاصل ہونگے جب ہمارے مقامی باشندے تربیت یافتہ لیبر کے طور پر اپنی خدمات پیش کرسکیں گے۔ صنعتی زونز کے بعد بلوچستان کا نقشہ بدل جائے گا اگر ان مجوزہ منصوبوں کو سنجیدگی سے عملی جامہ پہنایا جائے۔

گزشتہ روز سی پیک کے تحت صوبے کے مختلف علاقوں میں اسپیشل اکنامک زونز کے قیام کے مجوزہ منصوبوں سے متعلق امور کا جائزہ اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ صوبے میں اسپیشل اکنامک زونز کے قیام سے معاشی و تجارتی سرگرمیوں اور روزگار میں اضافہ ہوگا، کارپوریٹ گورننس کے ذریعہ صوبے کی زرعی، معدنی،سمندری اور لائیو اسٹاک کی پیداوار سے بہترین استفادہ ممکن ہوسکتا ہے۔

جس سے صوبے کی مجموعی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اجلاس میں اسپیشل اکنامک زونز کے لئے اراضی کی فراہمی سمیت دیگر متعلقہ امور کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے محکمہ صنعت کو گڈانی میں اسپیشل اکنامک زون کے قیام کی فزیبلیٹی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بن قاسم اور کے پی ٹی میں تجارتی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے تناظر میں گڈانی میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے قیام کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے اور یہ منصوبہ صوبے کی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔جس طرح موجودہ حکومت نے اسپیشل اکنامک زونز کے قیام کو صوبہ میں معاشی ترقی قرار دیا ہے۔

اس سے قبل دیگر حکومتوں نے بھی یہی باتیں کی تھیں اور اس حوالے سے اہم فیصلے بھی کئے گئے تھے مگر ان پر اس طرح عملدرآمد نہیں کیا گیا کہ جس کے نتائج آج واضح نظر آتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر حکومت معاشی ترقی کے حوالے سے بہترین پالیسیاں مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی کرکے فیصلے کرتی ہے ان پر من وعن عملدرآمد کیونکر نہیں ہوتا، اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ان خامیوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور جہاں سے بھی کوتاہی برتی جاتی ہے۔

انہیں اس طرح کے اہم منصوبوں سے دور رکھا جائے۔ بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت معاشی ترقی کے حوالے سے ہر لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ صوبہ میں معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں، زراعت ہمارا سب سے منافع بخش شعبہ ثابت ہوسکتا ہے مگر اس پر بھی توجہ نہیں دی جاتی، گوادر پورٹ جو کہ نہ صرف ملک اور صوبہ بلکہ پوری دنیا کیلئے معاشی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مگر ہماری سرمایہ کاری اور توجہ کم دکھائی دیتا ہے اگر صرف گوادر پر ہی سرمایہ کاری کی جائے تو صوبہ اربوں روپے سالانہ کما سکتا ہے جس طرح سے ایران کا پورٹ چاہ بہار ان کیلئے منافع بخش بنا ہے جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ایران سینٹرل ایشیاء سے راہداری کے ذریعے اربوں روپے منافع کما رہا ہے جس میں دیگر ممالک کی سرمایہ کاری بھی زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان معاشی ترقی کے تمام منصوبوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تو یقینا ہمارے اکنامک زونز صوبے کی تقدیر بدل کررکھ دیں گے مگر اس کیلئے سنجیدگی اور منصوبوں پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔