عرصہ دراز سے ملک کے اندر ایک مسئلہ تواتر سے چلتا آرہا ہے جو کہ صوبوں کی انتظامی تقسیم سے متعلق ہے اور یہ آواز ہر وقت کراچی سے ہی بلند ہوتی آئی ہے۔ پہلے کراچی کی دیواروں پر مہاجر صوبہ کا نام درج ہوتا تھا موجودہ ایم کیوایم یا ماضی کی قیادت اس کی ہر سطح پر نہ صرف حمایت کرتی رہی ہے بلکہ ان کی پالیسی کا حصہ رہی ہے مگرپیپلزپارٹی سمیت سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
ملک کے دیگرصوبوں میں بھی اس مسئلہ کو اٹھایا جاتا رہا ہے یا پھر الگ صوبوں کی بات کی گئی ہے البتہ اس معاملے کو ہمیشہ باریک بینی سے دیکھا گیا ہے کہ کسی طرح بھی وفاق کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ بہرحال اب یہ نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے یقینا اس حوالے سے شدید مخالفت بھی دیکھنے کو ملے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاملہ دیگر صوبوں تک نہ جائے جو کسی طرح بھی سیاسی ماحول کیلئے بہتر نہیں ہے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کراچی پر وفاق کے کنٹرول کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر قائد کو بہتر کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے اور اب کراچی کے حوالے سے مداخلت ضروری ہوگئی ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی پر الزام عائد کیا کہ اس نے کراچی سمیت پورے سندھ کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئین کی شق 149 (4) کے تحت وفاق کی جانب سے کراچی کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ حکومت سے درخواست کی جائے گی لیکن اگر صوبائی حکومت نہ مانی توپھر سپر یم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر کے بیان پر حکومت سندھ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت پاکستان تحریک انصاف اور مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی ہے اورساتھ ہی دعویٰ کیاہے کہ سندھ میں آئین کی شق 149 کا نفاذ وفاقی حکومت کی خواہش ہوسکتی ہے لیکن اسے حقیقت نہیں بننے دیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کاکہناہے۔
کہ آئین کی شق 149 کے تحت وفاق صرف صوبائی حکومت کو ہدایات دے سکتا ہے۔بیرسٹر فروغ نسیم نے واضح کیا کہ ایک مسودہ قانون تیا ر کر رہے ہیں جو ہفتہ کو وزیراعظم عمران خان کے سامنے پیش کریں گے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ تیار کیے جانے والے مسودہ قانون کے تحت آئین کی شق 149 (4) کے تحت سندھ حکومت سے درخو است کی جائے گی کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور ہم اس کا کنٹرول چا ہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیار کیا جانے والا مسودہ قانون وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر حکومت سندھ اس کی منظوری نہیں دیتی ہے تو پھر عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے۔بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے اور سپریم کورٹ نے فیصلہ دینا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق آئین کی شق 149 کے استعمال سے مرکز اور صوبے کے درمیان موجود تناؤ میں مزیداضافہ ہوگا۔
اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ جیسے ہی آئین کی شق 149 کا اطلاق کیا جائے تواسے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کردیا جائے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے اس کے استعمال کو کالعدم قرار دے دیا تو کیا صورتحال بنے گی،فی الوقت اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ماضی ہمارے سامنے ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ہمیشہ صوبوں اور وفاق کے درمیان خلیج پیدا ہوئی ہے اور تناؤ میں شدت آئی ہے۔
اگر کراچی کے معاملات اتنے سنگین ہیں تو انہیں ٹھیک کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت مل کرکام کریں تاکہ مسائل بہتر انداز میں حل ہوسکیں بجائے اس کے کہ سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا جائے کیونکہ قوی امکان ہے کہ پھر صوبوں کی تقسیم سمیت انتظامی تقسیم کا معاملہ بھی شدت اختیار کرجائے گا جس کا متحمل ملکی سیاسی حالات نہیں ہوسکتے۔