بلوچستان ملک کا واحد وہ بدقسمت صوبہ ہے جس نے اپنی کھوکھ سے پیدا ہونے والے وسائل کودونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوئے دیکھا ہے مگر اپنے لوگوں کوکبھی اس کا فائدہ پہنچتے نہیں دیکھا البتہ یہ ضرور ہے کہ اس پر چیخ وپکار صوبائی ایوان سے لیکر مرکز کے دونوں بڑے ایوانوں میں سنائی دیتا ہے مگر یہ جوش خطابت وقتی طور پر بلوچستان کے عوام کو تسلی دینے کیلئے ہوتی ہے اور نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پھر سے بلوچستان کے وسائل کو کس طرح کس کمپنی کے حوالے کرکے بھرپور لوٹا جائے۔
بلوچستان میں جیسے کمپنیوں کا راج ہے اوروہ تمام قوانین سے بالاتر ہیں اور بلوچستان کے عوام سے تو انہیں کوئی سروکار ہی نہیں صرف منافع کماکر استحصال کرنا ہے مدرپدر آزاد کمپنیاں بھی کسی طرح معاہدوں کے پابند ہیں مگر شومئی قسمت ہمارے حکمرانوں نے پسماندگی کا رونا تو ہمیشہ رویا ہے مگر کبھی بھی ان کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی تفصیلات طلب نہیں کیں اور آفیسران کو طلب کرکے ان سے کوئی بات چیت تک نہیں کی۔ چونکہ پہلی ذمہ داری بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے صوبہ کے وسائل کے تحفظ کیلئے کردار ادا کریں کیونکہ عوام ان کو مینڈیٹ دیکر ایوانوں تک پہنچاتی ہے تاکہ وہ ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں،چاہے وہ حکومت یا اپوزیشن میں ہوں دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔
بلوچستان کے اہم عہدے پر فائز ایک سابق سیکریٹری کے مطابق بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے صوبہ کو تین قسم کی آمدنی ملتی ہے وفاقی حکومت اسے جمع کرتی ہے پھر اپنے چارجز کی کٹوتی کے بعد رقم صوبہ کے حوالے کرتی ہے اس تمام صورتحال میں وفاق صرف ایک ایجنٹ کاکام کرتی ہے، اب یہ تین قسم سے ملنے والی رقم باقاعدگی سے کیا صوبہ کو مل رہی ہے یا نہیں یہ سوال جواب طلب ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گیس کی آمدن سے ملنے والی رقم جو تین ارب روپے تھی تو اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے یہ کہہ کر صوبہ کو رقم دی کہ بلوچستان کو 3 ارب روپے کا ایڈیشنل اضافی گرانٹ دیا گیا ہے،بدقسمتی سے کسی نے بھی اس پر سوال نہیں اٹھایاکہ یہ رقم بلوچستان کی اپنی ہی ہے جسے گمراہ کن بیانات کے ذریعے دیا جارہا ہے تاکہ سیاسی اسکورنگ کیا جاسکے۔
ایک اعلیٰ آفیسر نے جب گیس کے ریکارڈ کے حوالے سے ریسرچ کیا تو 15 سال کی تفصیلات میں یہ بھی انکشاف سامنے آیا کہ بلوچستان کو ایک سال کی آمدن جو تین ارب روپے بنتی ہے اسے نہیں دیا گیا اب سوال یہ تو ضرور اٹھتا ہے اور اٹھایابھی گیا کہ سوئی سے گیس کے ذخائر ختم تو نہیں ہوئے بلکہ آج تک بلوچستان کی گیس سے بھرپور طریقے سے وفاق اور کمپنی فائدہ اٹھارہی ہے پھر یہ رقم کس کی جیب میں گئی۔
یہ سوال صوبائی حکومت کو وفاق اور سوئی گیس کمپنی سے پوچھنا چاہئے کہ ہمارے صوبہ کی یہ رقم کس نے ہڑپ کی ہے مگر نہ جانے کیوں ہماری یہاں کی حکومتوں نے ان اہم معاملات پر چھپ کا روزہ رکھا ہوا ہے یقینا دگنا رقم وصول کرنا چاہئے جو کہ صوبہ کااپنا پیسہ ہے اور وسائل بھی ہمارے اپنے ہیں۔گیس سے ہونے والی آمدن سے اب تک بلوچستان کو صرف 7 ٹریلین جبکہ وفاق کو 71 ٹریلین روپے ملے ہیں۔
یہ بات تو واضح ہے کہ بلوچستان کے عوام نے 85ء تک گیس کونہ اپنے چولہے میں دیکھا اور نہ ہی یہاں کی صنعتوں کو گیس فراہم کی گئی۔سوئی گیس کمپنی کا اس میں کردار کتنا ہے اس کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے اول تو یہ ہونا چاہئے کہ سوئی گیس کا ہیڈکوارٹر بلوچستان منتقل کیاجائے کیونکہ سوئی بلوچستان میں ہے اور اس کا مرکزی آفس کراچی میں یہ سراسر ناانصافی ہے لہٰذا فی الفور یہ مطالبہ حکومتی واپوزیشن جماعتیں وفاق کے سامنے رکھیں کہ سوئی گیس کا مرکزی آفس بلوچستان میں ہونا چاہئے تاکہ ہمارے لوگوں کی مشکلات میں بھی کمی آسکے۔
سوئی گیس کمپنی کے رویہ سے بلوچستان کے عوام اچھی طرح سے واقف ہیں کہ آج بھی بلوچستان کے بیشتر علاقے گیس سے محروم ہیں جہاں گیس فراہم کی جاتی ہے وہاں سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس غائب ہوجاتی ہے جبکہ پریشر میں کمی لائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اموات پیش آتے ہیں پہلے تو سوئی گیس کمپنی عوامی آگاہی مہم چلاتی تھی مگر یہاں بھی بلوچستان کے عوام کی زندگیوں سے کھیل کر رقم بچاکر مہم بند کردی گئی ہے کہ گیس کا استعمال کیسے کرنا چاہئے۔
بہرحال جب تک یہ ذمہ داری ہماری تمام سیاسی جماعتیں نہیں اٹھائیں گی یہ ظلم کا بازار چلتا رہے گا اور بلوچستان کے وسائل کو اسی طرح کمپنیاں لوٹتی رہینگی۔سوئی گیس کمپنی کا رویہ بلوچستان کے ساتھ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کا برصغیر کے دور میں تھا۔ بہرحال اس تمام صورتحال میں کردار بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کا ہے جنہوں نے صوبہ کے عوام کو نہ صرف انصاف دلانا ہے بلکہ ان کے حقوق دہلیز تک پہنچانا ہے جس کا انہوں نے عہد کررکھاہے۔