افغانستان میں پُرامن ماحول پیدا کرنے کیلئے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا طویل دور چل رہا تھا اس دوران 9 بیٹھک لگے مگر افغانستان میں طالبان کے حملے کے بعد اچانک امریکی صدر نے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
گمان یہ کیاجارہا تھا کہ شاید ان ملاقاتوں اور بیٹھک سے ایک مثبت فیصلہ افغانستان امن کے حوالے سے آئے گا البتہ اب امریکہ کا موڈ مکمل تبدیل ہوگیا ہے اور وہی پرانی پالیسی جو کہ دہائیوں سے اپنائی گئی ہے افغانستان کے حوالے سے اسی پر عمل ہوگا یقینا خطے کیلئے یہ نیک شگون نہیں بلکہ اس سے مزید انتشار اور جنگی کیفیت پیدا ہوگی جس سے خطہ پہلے سے ہی متاثر ہے۔ امریکہ نے پہلے افغانستان سے فوجی انخلاء کی بات کی تھی اس سے بھی یوٹرن لیا گیا۔ امریکہ کے اس رویہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے کسی کی پرواہ نہیں بلکہ وہ اپنی ایک مخصوص پالیسی اور مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ویتنام، عراق، شام سے امریکہ نے واپسی کا راستہ کیسے اختیار کیا اور وہاں حالات کس طرح تھے کہ جب امریکی فوج کا انخلاء ہوا یہ سب کے سامنے ہے دلچسپ امریہ ہے کہ امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ انتخابات میں ایجنڈے شامل ہوتے ہیں اور یہ فیصلہ بھی اسی کی بنیاد پر کیا گیا ہے تاکہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں کہ امریکی افواج کی ہلاکت پر مذاکرات ختم کئے گئے ہیں تاکہ عام امریکی شہریوں میں اسے پذیرائی ملے مگر یہ بھلا دیا گیا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں گھمسان کی جنگ جاری ہے اور اس میں کتنے امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اس کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری رہابلکہ امریکہ نے خود اس معاملے کو جلد بات چیت کے ذریعے حل کرنے کیلئے پاکستان سے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے کہا جس پر پاکستان نے کمل حامی بھری تھی۔
البتہ اب اس خوش فہمی سے نکلنا ہوگا کہ امریکہ خطے یا پاکستان کے ساتھ کوئی ہمدردی رکھتا ہے بلکہ اسے اپنے مفادات سب سے زیادہ عزیز ہیں اور وہ اپنی بنائی گئی پالیسیوں پر ہی چلتا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر گفتگوکے لیے طالبان کا وفد روسی دارالحکومت ماسکو پہنچ گیاجہاں روسی حکام سے ملاقات کی اور ان کی جانب سے چین، ایران اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کے دورے کا اعلان بھی کیا گیا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قطر میں 9 مذاکراتی ادوار کے بعد صدر ٹرمپ نے طالبان نمائندوں کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کرنا تھی اور بظاہر امن معاہدہ طے پانے والا تھا لیکن طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر نے طے شدہ ملاقات منسوخ کرتے ہوئے مذاکرات کو بھی ڈیڈقرار دے دیا۔
اس اچانک فیصلے کے بعد طالبان علاقائی قوتوں کے ساتھ رابطوں میں تیزی لے آئے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق صدر پوٹن کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے ماسکو میں طالبان وفد کی میزبانی کی۔ ماسکو میں وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھاکہ روس کی طرف سے طالبان تحریک اور امریکا کے مابین امن مذاکرات بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جبکہ طالبان نے بھی اپنی طرف سے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
قطر میں ایک سینئر طالبان رہنما ء نے علاقائی ممالک کے ساتھ رابطہ کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دوروں کا مقصد ان ممالک کی قیادت کو امن مذاکرات اور صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک ایسے وقت پر امن عمل ختم کرنے کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے جب فریقین امن معاہدے پر دستخط کرنے ہی والے تھے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت الفاظ میں افغان طالبان کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امریکی فوجی سمیت 12 افراد کو قتل کر کے اچھا نہیں کیا بلکہ بہت بڑی غلطی کی ہے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اب طالبان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ہم افغان طالبان پر اتنے زور دار حملے کرینگے کہ جتنے ماضی میں کبھی نہیں ہوئے۔
طالبان وفد کی پوری کوشش اس بات اس پر لگی ہوئی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امریکی فوج کا انخلاء ممکن ہوسکے مگر اس وقت امریکی صدر کا جو بیان سامنے آیا ہے اس سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ افغانستان میں آپریشن میں شدت لاتے ہوئے بھرپور کارروائیاں کی جائینگی جس کا نقصان خطے کے ممالک کو اٹھانا پڑے گا اور امریکہ اس دوران کسی ملک کی بات سننے کو تیار نہیں۔