|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2019

سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہی ہے، حالیہ تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں ایران کا نام لیاجارہا ہے جبکہ ایرانی حکام اس کی تردید کرتے آرہے ہیں۔

سعودی حکام کاکہنا ہے کہ اس کی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملے کی ابتدائی تحقیقات میں یہ اشارہ ملا ہے کہ استعمال کیے جانے والے ہتھیار ایرانی تھے تاہم ابھی یہ پتہ لگانے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ حملے کا ذریعہ کون ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ اس سے آرامکو کمپنی کی پیداوار میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ سعودی عرب نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ماہرین کو دعوت دی ہے کہ وہ زمینی صورتحال کا جائزہ لیں اور تحقیقات میں شامل ہوں۔

سعودی عرب کاکہنا ہے کہ ریاست نتائج کی بنیاد پر تحفظ اور استحکام کے لیے مناسب اقدامات کرے گی، ریاست اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور سرزمین کا دفاع اور جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سعودی عرب میں بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی آرامکوکی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ان حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔

امریکی حکام نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ان حملوں کی سمت اور حد دیکھنے کے بعد ان کے پیچھے حوثی باغیوں کا ہاتھ ہونے کے شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔ بقیق میں تیل صاف کرنے کے کارخانے اور خریص میں تیل کے کنوؤں پر ہونے والے ان حملوں میں ڈرونز اور میزائلوں کا استعمال کیا گیا تاہم وہ سب نشانے پر نہیں لگے۔ان مقامات پر 19 اہداف کو نشانہ بنایا گیا اور یہ حملے مغرب اور شمال مغرب سے کیے گئے جبکہ یمن سعودی عرب کے جنوب میں واقع ہے۔

یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے باوجود امریکی حکام نے ایران کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ مجرم کون ہے اور وہ ان حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہیں لیکن وہ سعودیوں سے یہ سننے کے منتظر ہیں کہ اس حملے کے پیچھے کون ملوث تھا اور وہ کس طرح آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

ایران کی جانب سے امریکہ کے تازہ الزامات پر ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پہلے ہی امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس الزام کو صریحاً دھوکہ بازی قرار دے چکے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے تہران کا ہاتھ ہے۔سعودی عرب میں گزشتہ روز تیل کی تنصیبات پر حملوں کا اثر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر دیکھنے میں آیا ہے، پیر کو بازار کھلتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گزشتہ چار ماہ کی بلند ترین سطح کو جا پہنچی۔

سعودی تنصیبات کے مکمل طور پر بحال ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں اور ان حملوں کی وجہ سے تیل کی عالمی رسد میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی آ گئی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان تناؤ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے مگرگزشتہ چند ماہ سے اس میں شدت دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی اگر جنگی صورتحال میں بدل گئی تو مشرق وسطیٰ اس کی لپیٹ میں تو ضرور آئے گا مگر یہ دیگر ممالک کو بھی متاثر کرے گا۔

دونوں ممالک نئی صف بندی کرتے دکھائی دے رہے ہیں مگر عالمی طاقتوں کا مکمل سپورٹ اس وقت سعودی عرب کے ساتھ ہے البتہ بعض ممالک موجودہ کشیدگی کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں کیونکہ اس سے عالمی امن کو شدید خطرات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گاجبکہ دنیا موجودہ حالات میں اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔