افغانستان میں گزشتہ چند روز کے دوران بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں تیزی آئی ہے کیونکہ افغانستان میں انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے دوسری جانب طالبان نے انتخابی مہم کے دوران عوام کو جلسے جلوس اور عوامی اجتماعات سے دور رہنے کا عندیہ دیا ہے۔
بہرحال افغانستان کی صورتحال ایک بار پھر خراب ہوتی جارہی ہے جوکہ کسی صورت خطے کے مفاد میں نہیں۔ اس سے قبل دوحا میں ہونے والے مذاکرات کی ہر سطح پرپذیرائی کی جارہی تھی کہ جلد ہی افغانستان میں فریقین کسی نتیجہ پر پہنچیں گے مگر حالیہ کارروائیوں کے بعد امریکہ نے مذاکرات ختم کردیئے جبکہ طالبان نے مذاکرات کے خاتمے پر مؤقف دیا تھا کہ آخری مراحل میں یہ معاملہ پہنچ چکا تھا مگر عین اسی دوران امریکہ نے مذاکرات ختم کردئیے۔
گزشتہ روز امریکی سفارتخانے اور صوبہ پروان میں ہونے والے طالبان کے دو حملوں میں 48 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوگئے افغان صدر اشرف غنی دھماکے میں بال بال بچ گئے۔پہلا دھماکا افغانستان کے صوبے پروان میں افغان صدر اشرف غنی کی انتخابی ریلی کے قریب کیا گیا۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار خودکش بمبار نے ریلی کے قریب چیک پوسٹ پر خود کو دھماکے سے اڑادیا جس میں 26 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوگئے۔ دھماکے میں افغان صدر محفوظ رہے۔
دھماکا اس وقت کیا گیا جب اشرف غنی اپنے کارکنوں سے خطاب شروع کرچکے تھے۔ دھماکے کے بعد بھی اشرف غنی نے اپنا خطاب جاری رکھا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف اشرف غنی نہیں بلکہ ریلی کی سیکیورٹی پر مامور افغان سیکیورٹی اہلکار تھے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہناہے کہ ریلی پر حملہ 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کو سبوتاژ کرنے کیلئے کیا گیا، ہم نے پہلے ہی لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ انتخابی ریلیوں میں نہ جائیں۔ دوسرا دھماکا افغان دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کے قریب کیا گیا جس میں 22 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوگئے۔ طالبان نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔
خیال رہے کہ طالبان نے حالیہ دنوں میں حکومت اور غیر ملکی افواج پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے اور گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کو جواز بناتے ہوئے طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا میں جاری امن مذاکرات کو منسوخ کردیا تھا۔ حالیہ جو جنگی صورتحال پیدا ہوئی ہے اگر اس میں کمی نہیں آئی تو یہ تمام مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گاکیونکہ ان دنوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔
یقینا اس کی لپیٹ میں مشرق وسطیٰ بھی آئے گا اور اس طرح یہ دیگر اسلامی ممالک کی طرف بڑھتا جائے گا بدقسمتی سے مسلم ممالک کے پاس ایک ہی فورم ہے اوآئی سی وہ بھی انتہائی غیر فعال دکھائی دیتی ہے کشمیر سے لیکر افغانستان اور سعودی عرب ایران کے معاملے پر بھی اس کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ اگر اوآئی سی فعال ہوتی تو آج مسلم ممالک کو جن چیلنجز اور دہشت گردی کا سامنا ہے وہ نہ ہوتا۔
اوآئی سی متحرک طریقے سے کام کرتی تو مسلم ممالک کو یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔ آج دنیا میں معاشی جنگ لڑی جارہی ہے نئی صف بندیاں ہورہی ہیں دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے بدقسمتی سے قیمتی وسائل کے مالک مسلم دنیا جنگ میں مبتلا ہیں،تیل اور گیس کے بڑے ذخائر مسلم ممالک کے پاس ہیں جن سے دنیا فائدہ اٹھارہی ہے جبکہ مسلم ممالک کے درمیان تجارت کی بجائے جنگ بڑھتی جارہی ہے۔
لہٰذا اوآئی سی کو متحرک ہوکر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جس مقصد کیلئے اس کی بنیاد رکھی گئی تھی اب ضرورت ہے کہ کشمیر سے لیکر افغانستان اور سعودی عرب، ایران کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ہنگامی اجلاس طلب کرکے ان مسائل کا حل ڈھونڈاجائے تاکہ مسلم ممالک دہشت گردی سے نکل کر خوشحالی کی طرف بڑھیں۔