|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2019

گزشتہ روز ڈی جی ہیلتھ آفس میں ڈینگی کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں سیکریٹری صحت حافظ عبدالماجدسمیت دیگر حکام نے شرکت کی، اجلاس میں ملیریا کنٹرول پروگرام کے پروانشل کوارڈینیٹر ڈاکٹر خالد بلوچ اوردیگر نے شرکت کی۔

اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں رواں ماہ ڈینگی کے 43مریض سامنے آئے ہیں جن میں سے 14میں ڈینگی کی تصدیق ہوئی ہے جنہیں میر غلام قادر ہسپتال میں ہرممکن علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ بلوچستان کے علاقے کیچ میں رواں سال مارچ کے دوران ڈینگی کے 1725کیس سامنے آئے تھے اور کیچ میں ماہ جون کے دوران ڈینگی پر قابو پالیا گیا تھا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ڈینگی وائرس کے مریضوں کیلئے ٹی بی سینٹوریم کوئٹہ، میر جام غلام قادر ہسپتال اور تربت میں خصوصی وارڈ قائم کئے گئے ہیں جہاں ڈینگی کے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ سیکرٹری صحت حافظ عبدالماجد اور قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر کمالان گچکی کاکہناتھاکہ عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور بلوچستان میں ڈینگی کے خاتمے کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جارہے ہیں ڈینگی سے متاثرہ علاقے لسبیلہ میں امدادی ٹیموں نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔

بہرحال ضلع کیچ میں جب ڈینگی وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سامنے آئے اس دوران مقامی لوگوں کی جانب سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ تربت کے مقامی ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس کے نارمل ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے مگر ان کی حتمی تشخیص اور مکمل ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ مریضوں کی اکثریت جو ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں انہیں علاج کے لیئے کراچی منتقل کیاگیا۔ ڈینگی وائرس سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سنگانی سر،ملک آباد اور سٹی شامل ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں کیسز کی تعداد بہت کم ہے۔

اب جو نئے اعداد وشمار محکمہ صحت کی جانب سے سامنے آئے ہیں کتنے اضلاع میں ڈینگی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور اس سے کتنے اموات اور کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں مگر صحیح حقائق اس وقت سامنے آئینگے جب ذرائع ابلاغ کی رسائی اسپتالوں تک ممکن ہوگی۔ المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کے سول سنڈیمن اسپتال میں جب میڈیا نمائندگان رپورٹنگ کیلئے جاتے ہیں تو ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے جبکہ میڈیا نے اس دوران انتظامیہ کا مکمل بائیکاٹ بھی کررکھا تھا۔

محکمہ کی بہتر کارکردگی کی رپورٹ صرف ان کے حکام کے ذریعے نہیں دی جاسکتی بلکہ ذرائع ابلاغ کی رسائی سے ہی اصل حقائق تک پہنچاجاسکتا ہے جس سے صوبائی حکومت کو معاونت ملے گی کہ عوام کو صحت کے حوالے سے حقیقی معنوں میں ریلیف مل رہا ہے یا کہ چند سیکریٹری صاحبان صرف سب کچھ اچھا کا راگ الاپتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کو گمراہ کررہے ہیں کیونکہ صوبہ کی گورننس کی بری اور بھلی کارکردگی کا سارا ملبہ وزیراعلیٰ پر گرتا ہے جوکہ صوبہ کا ایگزیکٹیو ہے لہٰذا اب جو ڈینگی جیسے خطرناک بیماری کی تشخیص ہورہی ہے اس پر میڈیا کو مکمل اجازت فراہم کی جائے کہ وہ اسے رپورٹ کرے۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کتنے اضلاع میں کیسز سامنے آرہے ہیں اور ان کے علاج معالجے کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ صوبائی حکومت مکمل آگاہی کے ساتھ اس بیماری کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر نہ صرف اقدامات اٹھائے بلکہ علاج معالجے کیلئے بہترین سہولیات فراہم کرسکے۔ اگر ذرائع ابلاغ کو دور رکھا جائے گا تو آگے چل کر مزید رپورٹس اور علاج کے متعلق شکایات سامنے آئینگی جوکہ حکومت کی بدنامی کا سبب بنیں گی لہٰذا وزیراعلیٰ بلوچستان خود اس معاملے کی نگرانی کریں تاکہ حکومت کو بہتر طریقے سے خدمت کا موقع مل سکے۔