|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2019

گزشتہ روز کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آئی جی پولیس محسن احسن بٹ کی جانب سے دیئے گئے اعزازیہ سے خطاب کے دوران کہا کہ بلوچستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کیا، صوبے کا مستقبل روشن اور ہم اپنی منزل کے قریب ہیں،پاک افغان سرحد پر ایک سال میں 630کلو میٹر پر باڑ لگا نے کا کام مکمل ہوچکا ہے،پاک ایران سرحد پر بھی 30کلو میٹر باڑ لگانے کا پیکج تیار ہوچکا ہے۔

حکومت اور اداروں نے ملکر دہشتگردی کو شکست دی۔کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ جب چرچ کے اند ر پولیس کے جوا ن نے خودکش حملہ آور کو ہلاک کیا تو یقین ہوگیا کہ ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

ماضی میں کوئٹہ میں دن میں ٹارگٹ کلنگ کے دو سے تین واقعات ہوتے تھے جب ایلیٹ پولیس بنائی تو اعادہ کیا کہ حملہ آور آ تو سکتا ہے جا نہیں سکتا،پولیس نے بہادری سے مقابلہ کیا اور ٹارگٹ کلرز کو مارا ،اب کوئی آنے سے دس بار پہلے سوچے گا، پولیس کو دہشتگردی پر قابو پانے کا سہرا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان معمول کی طرف جارہا ہے اب پولیس، اے ٹی ایف، اسپیشل برانچ اپنا کام کر رہی ہیں ایف سی اور دیگر فورسز پیچھے جارہی ہیں تمام فورسز حکومت کی سرپرستی میں امن و امان کے قیام کے لئے متحد ہیں،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا علاج اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہے، بلوچستا ن میں سرحد پار سے دہشتگرد آتے ہیں۔

یقینا بلوچستان میں دہشت گردی اور شدت پسندکارروائیوں کی سب سے بڑی وجہ سرحد پار سے دہشت گردی ہے اور یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے امن وامان کے حوالے سے ایک چیلنج بن چکا تھا مگر افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ باڑ لگانے سے خاص کر بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردی کے واقعات کی شرح میں بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے کوملی ہے،اگر کہاجائے کہ نہ ہونے کے برابر تخریبی کارروائیوں ہورہی ہیں تو یہ بجاہوگا کیونکہ ملک دشمن عناصر خاص کر پڑوسی ملک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ تخریب کاری کرسکیں۔

باڑ لگانے کے اقدام کو بلوچستان میں زبردست پذیرائی مل رہی ہے کیونکہ یہاں کی عوام نے دہشت گردی کا ایک طویل عرصے تک مقابلہ کیا جس میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں یہاں تک کے ہمارے اہم شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہدف بنایا گیا،ان سانحات کو بلوچستان کے عوام کبھی بھلا نہیں سکتے۔

دنیا کے ترقیاتی ممالک سب سے پہلے اپنے ملک کو محفوظ بنانے کیلئے حکمت عملی تیار کرتے ہیں کیونکہ جب تک ملک اندرونی وبیرونی چیلنجز سے دوچار ہوتا ہے تو وہاں معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے اس لئے اندرونی استحکام کیلئے سرحدوں کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ جہاں تک پڑوسی ممالک سے تعلقات کی بات ہے تو پاکستان نے ہر وقت خیر سگالی کے طور پر اپنی خدمات پیش کئے ہیں۔

آج بھی اگر دیکھا جائے تو افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان خاص کر بلوچستان میں موجود ہے جوکہ ہماری معیشت پر بوجھ بنی ہوئی ہے لیکن انسانی خیر سگالی کی خاطر کئی دہائیوں سے ان کی مہمان نوازی کی جارہی ہے، شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں پر اتنے مہاجرین موجود ہوں۔

دہشت گردی کے پیش نظر باڑ لگاکر امن کی طرف ایک اچھا قدم اٹھایا گیا ہے اس سے ہمار ی تجارتی برادری کو بھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ قانونی طریقے سے جب ملکی سطح پر پڑوسی ممالک سے تجارت ہوگی تو اسمگلنگ کی روک تھام میں بھی آسانی ہوگی اور حکومتی خزانہ کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا معاشی ترقی اور امن وامان دونوں صورتوں میں ملک کو فائدہ پہنچے گا۔