|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2019

دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سیاسی صورتحال کے باعث خطے میں نئے مسائل جنم لے رہے ہیں، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے کنٹرول میں لینے کیلئے 370 کو ہٹایا جس کی توقع نہیں کی جارہی تھی کیونکہ اس سے قبل پاکستان کی موجودہ حکومت پُرامید تھی کہ بھارت میں اگر دوبارہ نریندر مودی کی حکومت بنے گی تو مذاکرات کیلئے رستہ ہموار ہوگا مگر نریندر مودی نے انتہاء پسندی کی سوچ کو اپناتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کی سوچ کے ساتھ وہاں کشمیریوں کی نسل کشی شروع کردی ہے اور آج چالیس روز سے زائد گزرگئے وہاں مکمل بلیک آؤٹ ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

دوسری جانب پُرامن کشمیریوں کے مظاہرین پر تشدد اور گھروں کی چادر وچار دیواری کے تقدس کو بھی پامال کیا جارہا ہے جس پر پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی اوراس پر پاکستان کوکامیابی بھی حاصل ہوئی۔ سلامتی کونسل میں پچاس سال بعد ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی اور دنیا کے بیشتر ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی مظالم پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی جس پر وزیراعظم عمران خان نے اسے قبول کیا اور دیگر ممالک کو بھی اس حساس مسئلہ کو حل کرانے پر زور دیا تاکہ خطے میں کشیدگی نہ بڑھے کیونکہ دہائیوں سے افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور حال ہی میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات امریکہ نے ختم کردیئے اور ابھی افغانستان کے مختلف حصوں میں شدت پسندی کے واقعات میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

اگر اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر چند نکات پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کیا جاتا تو یقینا اس کے مثبت نتائج آنے والے دنوں میں ملتے۔دوسری جانب امریکہ کے دورہ کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کا امریکی تھینک ٹھیک کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کاافغان امن معاہدے سے پیچھے ہٹنا تکلیف دہ ہے اور وہ ملاقات میں مذاکرات بحال کرنے کا کہیں گے کیونکہ افغانستان کے لوگ جنگ سے تنگ آچکے اور اب وہ امن چاہتے ہیں۔

طالبان 2001 جیسے نہیں رہے، اب جنگجوؤں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ پورا افغانستان کنٹرول نہیں کر سکتے اور مذاکرات چاہتے ہیں۔جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ہے، 18 سال بعد بھی طالبان مضبوط ہیں اور مزید 20 سال بھی لڑ سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہو رہا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی مجھے طالبان سے مل لینے دیتے تو شاید میں ان کو افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار کر لیتا، دو ہی راستے ہیں جنگ یا مذاکرات، جنگ سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور میں بھی جنگ کا حامی نہیں ہوں۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد مودی کو پیغام بھجوایا تھا کہ ہمیں مل کر مسائل کیخلاف لڑنا چاہیے لیکن وہاں سے مثبت جواب نہیں آیا۔مودی نے اپنے الیکشن مہم میں پاکستان مخالف جذبات کو ابھارا اور پلوامہ حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگایا۔

بہرحال وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ کے موقع پر یہ بات دوبارہ دنیا پر عیاں کردی ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت جنگ نہیں چاہتا بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہش مند ہے تاکہ دہائیوں سے متاثرہ خطے میں امن بحال ہواور معاشی پالیسیوں کو آگے بڑھایاجاسکے کیونکہ جنگ کی صورت میں صرف تباہی ہوگی جوکہ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ اب دنیا کو اس اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ خطے میں استحکام پیدا کیاجاسکے۔