|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2019

بلوچستان کے مسائل ویسے بھی ملکی معاملات میں اوجھل ہی رہتے ہیں کیونکہ بڑے میڈیا ہاؤسز کی ترجیح کبھی بھی بلوچستان کے سیاسی، سماجی، معاشی معاملات نہیں رہے۔

عموماََ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کو ہر لحاظ سے مکمل کوریج دی جاتی ہے، الیکٹرانک میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا کی ترجیح صرف تین صوبے رہتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے جلسے، جلوس، ریلیاں سمیت دیگر سرگرمیوں کو مکمل نظر انداز کیا جاتا ہے حالت یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ سمیت وزراء بھی ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے جبکہ پنجاب، سندھ اور کے پی کے کاصرف ایک وزیراگر کسی ایشو پر میڈیا سے بات چیت کرتا ہے تو اسے لائیو کوریج دی جاتی ہے۔

یعنی انتہائی سطحی باتیں کرنے والے وزراء بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں مگر ہمارے یہاں کے سنجیدہ مسائل، سیاسی ومعاشی معاملات پر حکومت اور اپوزیشن کے مؤقف کو کبھی نہیں دکھایا جاتا اور نہ ہی کارپوریٹ میڈیا پر اس حوالے سے بحث ومباحثہ کیاجاتا ہے سونے پہ سہاگہ جب کبھی بلوچستان کے کسی موضوع پر بات کی جاتی ہے تو جغرافیہ سے نابلد سماجی ومعاشرتی ڈھانچے سے ناواقف افراد الیکٹرانک میڈیا پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں جبکہ پرنٹ میڈیا پر ایسے لکھتے ہیں جیسے بلوچستان کے ہرگلی کوچے سے واقف ہیں۔

اس لئے آج تک بلوچستان کے حقیقی مسائل سے ملکی عوام آگاہ نہیں جس کی ذمہ دار کارپوریٹ میڈیا ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سب کو یکساں طور پر اہمیت دے۔ بدقسمتی سے یہی کارپوریٹ میڈیا بلوچستان کے اشتہارات پر شراکت داری کا پورا حق رکھتی ہے اور کروڑوں روپے اسی صوبے کے خزانے سے اشتہارات کے مد میں لیتی ہے مگر خبروں کے حوالے سے بلوچستان مکمل طور پر بلیک آؤٹ ہے۔

یہ تو کارپوریٹ میڈیا کا رویہ ہے، دوسری جانب وفاق کے رویے پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ ان کی نظر میں بلوچستان کتنی اہمیت کی حامل ہے ماسوائے میگا منصوبوں میں اپنے منافع کے دیگر معاملات سے اس کو کوئی سروکار نہیں، بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے مگروفاقی حکومتوں نے یہاں کسی بھی شعبہ کی ترقی وفروغ کیلئے وسائل خرچ نہیں کئے جس کی وجہ سے یہاں کے باصلاحیت لوگوں کی بڑی تعداد آج بھی بیروزگارہے۔

بلوچستان کے مقامی اخبارات کو ہمیشہ نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقے جن کے وہ نام تک سے واقف نہیں،وہاں کے ٹینڈر اشتہارات بھی بلوچستان کی بجائے دیگر صوبوں کے اخبارات میں دیئے جاتے ہیں جو ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس بات سے ہر ذی شعور شخص واقف ہے کہ بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کی تجاویز مقامی اخبارات بہترانداز میں دیتے ہیں اوریہی پورے صوبے کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، مگر بلوچستان کے مقامی اخبارات کے اشتہارات پر شب خون مار کر ان کی جگہ کارپوریٹ میڈیا کو ترجیح دی جاتی ہے یہ گلہ ہمیشہ مقامی اخبارات کا رہا ہے۔

مقامی اخبارات سے بلوچستان کے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور ان کا انحصار سرکاری اشتہارات پر ہے، اس غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے آج بلوچستان کے مقامی اخبارات شدید مالی بحران کا شکار ہیں جو اپنے اخراجات تک پورے نہیں کرپاتے جس سے بلوچستان کایہ روزگار فراہم کرنے والاشعبہ شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کے اخباری صنعت کو زوال سے بچانے کیلئے عملی کردار ادا کرے اور صوبائی حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے کیونکہ بلوچستان حکومت کی تشہیر یہاں کے مقامی اخبارات ہی بہتر انداز میں کر تے ہیں اور اس اہم نوعیت کے مسئلہ پر بھی غور کرے کہ گزشتہ چار ماہ سے مقامی اخبارات کے بقایاجات ادا نہیں کئے گئے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان اس حوالے سے واضح احکامات بھی دے چکے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔

لہٰذا وزیراعلیٰ بلوچستان ایک بار پھر اس کا نوٹس لیتے ہوئے بقایا جات کی ادائیگی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مقامی اخبارات مالی بحران سے نکل کر اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔